کتاب: محدث شمارہ 368 - صفحہ 53
عنوان یا جماعت کے تحت جمع ہو جائیں اور باہمی اختلاف کی باتیں اپنے تک محدود رکھیں، ایک دوسرے سے ان کا اظہار نہ کریں۔ ۳۔ جس فورم پر متحد ہیں، علیٰ الاعلان باہمی اختلاف اور متنازعہ اُمور کو ہوا نہ دیں۔ جبکہ فورم سے دور ہوں تو کوئی پابندی نہیں، لہٰذا یہی شخص جب اپنے ہم نواؤں میں جاتا ہے تو دوسرے کمرے میں جن سے اتحاد کی باتیں کر رہا تھا، اب ان 'مخالفین' کی کھل کر مخالفت کرتا ہے۔ غرضیکہ یہ اتحاد ان لمحات تک محدود ہوتا ہے جب مختلف نظریات کے لوگ جمع ہوں۔ ۴۔ آج کل اسی اتحاد کی دعوت دی جاتی ہے، گویا یہ مفہوم رائج ہو چکا ہے کہ اجسام ایک جگہ نظر آئیں، چاہے اذہان وقلوب بکھرے ہوئے ہوں۔ ۵۔ اتحاد کے اس خودساختہ مفہوم کو اس قدر پھیلایا گیا ہے کہ عام ذہن اس نتیجے پر پہنچ چکا ہے کہ قرآن نے جس اتحاد واتفاق کا درس دیا ہے وہ یہی اتحاد ہے۔ اسے کم ازکم قرآن مجید کی معنوی تحریف قرار دیا جا سکتا ہے۔ ۶۔ جو شخص اس خود ساختہ اتحاد کے مفہوم سے سرموانحراف کرتا ہے، لوگ اسے امن کا دشمن،اتحاد کا مخالف سمجھتے ہیں اور اسے معاشرتی ناسور قرار دیتے ہیں۔ ۷۔ اس اتحاد کی دعوت دینےوالے اور اسے اختیار کرنیوالے عموماً دوغلی پالیسی یا منافقانہ کردار کے حامل ہوتے ہیں اور ایسے اتحاد کی دعوت دینے والے عموماً منافق قسم کے گروہ ہی ہوتے ہیں۔ ۸۔ اتحاد کی اس پالیسی کے تحت بہت سے لوگ اپنے غلط عقائد ونظریات کو درست سمجھ کر اسی پر جمے رہتے ہیں۔کیونکہ اُنہوں نے سمجھ لیا ہے کہ اپنا مسلک چھوڑنا نہیں ہے۔ ۹۔ ایک دوسرے کی اصلاح کا دروازہ اس غلط اُصول کی وجہ سے تقریباً بند ہو چکا ہے۔ ۱۰۔ اس اتحاد کی دعوت دینے والے دراصل خود اتحاد کے بہت بڑے مخالف ہوتے ہیں کیونکہ اُنہوں نے اپنے غلط نظریات کو اتحاد واتفاق کی چھتری تلے تحفظ دینا ہوتا ہے۔ اتحاد کےعوامی مفہوم کے دلائل اور ان کا جائزہ جو لوگ مذکورہ اتحاد کے نقیب اور پیامبر ہیں، وہ متعدد دلائل بھی دیتے ہیں: