کتاب: محدث شمارہ 368 - صفحہ 52
ملت اسلامیہ محمد نعمان فاروقی [1] اتّحاد کا عوامی اور شرعی مفہوم؛ ایک موازنہ اتحاد، اتفاق، وحدت اور یکجہتی بڑے مؤثراورمعنیٰ خیز الفاظ ہیں۔ ان کا ایک مفہوم تو قرآن وسنت میں بیان ہوا ہے، تودوسری طرف ان کا ایک مفہوم عوام میں بھی رائج ہے۔ زیر نظر مضمون میں دونوں میں فرق پیش کرنے کے بعد،اتحاد کا اصل مفہوم اور اسکے ثمرات کا ذکر کیا جائے گا۔ ان شاء اللہ 'اتحاد' کا عوامی مفہوم اتحاد کا عوامی یا رائج مفہوم جسے میڈیا اور امن کمیٹیوں کے ذریعےپھیلایا جاتا ہے، یہ ہے کہ کسی کا نظریہ یا عقیدہ قرآن وسنت کی تعلیمات سے سو فیصد بھی مخالف ہو، وہ اس کا کھل کر پرچار کرے جبکہ کسی دوسرے کے نظریے یا عقیدے کے بارے میں کچھ نہ کہے، خواہ وہ غلط ہو یا صحیح۔ لوگ اگر کسی جگہ جمع ہوں تو صحیح اور غلط کا ایسا آمیزہ تیار کر لیں جو جانبین کو قبول ہو۔پنجاب پولیس اور امن کمیٹیوں کی طرف سے مشترکہ طور پر جو بڑے بڑے بورڈ آویزاں کیے گئے، ان پر بڑے واضح الفاظ میں ہر سال تقریباًیہی لکھا جاتا ہے کہ ''اپنا مسلک چھوڑو نہیں اور کسی کا مسلک چھیڑو نہیں۔'' اور اس کے اوپر آیت: ﴿وَاعتَصِموا بِحَبلِ اللَّهِ جَميعًا وَلا تَفَرَّ‌قوا[2] ''اور اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ بازی مت کرو۔'' بڑے جلی الفاظ میں لکھی جاتی ہے۔ در اصل یہی وہ عوامی مفہوم ہے جو ملکی سطح تک پھیل چکا ہے۔ اس مفہوم کی روشنی میں حسبِ ذیل اُصول ونتائج سامنے آتے ہیں: ۱۔ انسان اپنا عقیدہ جو مرضی رکھے اور جو مرضی عمل اختیار کرے، کوئی اُسے روک ٹوک نہیں سکتا۔ ۲۔ اتحاد واتفاق کا مفہوم یہ ہے کہ مختلف افکار واخیالات اور نظریات کے لوگ ایک جھنڈے،
[1] سابق ایڈیٹر ماہ نامہ ’ضیائےحدیث‘،لاہور [2] سورة آل عمران: ١٠٣