کتاب: محدث شمارہ 368 - صفحہ 51
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر 'امام' کی تفسیر 'ماؤں' سے نہ کریں تو اس کی اصل تفسیر ہے کیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ روایات میں تطبیق کی کوشش بعض علمانے مذکورہ روایات میں تطبیق دینے کی کوشش کی ہے وہ یوں کہ جس حدیث میں باپ کے نام سے بلائے جانے کا ذکر ہے وہ صحیح النسب آدمی کے بارے میں ہوا اور جس میں ماں کے نام سے بلائے جانے کا ذکر ہے وہ دوسرے آدمی کے بارے میں ہے۔ یا یہ کہ کچھ لوگوں کو ان کے باپ کے نام سے اور کچھ لوگوں کو ان کی ماں کے نام سے بلایا جائے گا۔ اس جمع یا تطبیق کو عظیم آبادی نے علقمی سے نقل کیاہے۔[1] بعض نے ایک دوسرے طریقے سے تطبیق دی ہے،وہ یہ کہ خائن کو اس کے باپ کے نام سے اور غیر خائن کو اس کی ماں کے نام سے بلایا جائے گا اور اس کی جمع کو ابن علان نے شیخ زکریا سے نقل کیا ہے۔[2]بعض نے حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما کو اس پر محمول کیا ہے کہ یہ اس آدمی کے بارے میں ہے، جو ولد الزنا نہ ہو یا لعان سے اس کی نفی نہ کی گئی ہو۔[3]مگر یہ سب تکلفات ہیں کیوں کہ جمع اور تطبیق کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جب دونوں طرف کی روایات صحیح ہوں جب کہ حدیث ابن عمر کے خلاف جو روایات ہیں وہ انتہائی ضعیف قسم کی ہیں۔ نیز اصل یہ ہے کہ آدمی کو اس کے باپ ہی کے نام سے پکارا جائے گا۔ ابن بطال لکھتے ہیں: والدعاء بالآباء أشد في التعریف وأبلغ في التمیز وبذلك نطق القرآن و السنة[4] "باپوں کے نام سے بلانا پہچان میں زیادہ واضح اور ممتاز کرنے میں زیادہ بلیغ ہے اور قرآن و سنت بھی اسی پر شاہد ہے۔ "
[1] عون المعبود: ۸؍۲۸۳ [2] الفتوحات الربانیہ : ۶؍۱۰۴ [3] الفتوحات الربانیہ : ۶؍۱۰۴ [4] شرح البخاری لابن بطال : ۹؍۳۵۴