کتاب: محدث شمارہ 368 - صفحہ 50
یعارض به ما هو أصح منه"[1] '' لیکن اس حدیث کے ضعف پر اتفاق ہے، لہذا اس سے حجت قائم نہیں ہوسکتی چہ جائیکہ اس کو صحیح حدیث کے مقابلے میں لایا جائے۔'' میں کہتا ہوں کہ اس حدیث کا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی حدیث سے بھی رد ہوتا ہے۔ جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب میت کو دفن کرنے سے فارغ ہوتے تو فرماتے : "استغفرو ا لأخیکم وسلوا له التثبیت ، فإنه الآن یسأل"[2] " اپنے بھائی کے لیے استغفار کرو اور اس کے لیے ثابت قدمی کا سوال کرو کیونکہ ابھی اس سے سوال کیا جائے گا۔" اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اس موقع پر میت کے لیے استغفار اور ثابت قدمی کا سوال کیا جائے گا نہ کہ اس کو تلقین کی جائے گی۔ ابن علان نے اس حدیث کو حدیث ابی امامہ کے شواہد میں ذکر کیا ہے۔[3] اور کس قدر عجیب بات ہے کیوں کہ استغفار،ثابت قدمی کی دعا اور تلقین میں بہت فرق ہے اور صحیح احادیث سے جو تلقین ثابت ہے وہ قریب الموت آدمی کے بارے میں ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لقنوا موتاکم لا إله إلا اللّٰہ )) [4] " اپنے مردوں کو( قریب المرگ لوگوں کو) لا إله إلا اللّٰہ کی تلقین کرو۔'' مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ کوئی بھی قابل اعتماد حدیث ایسی نہیں ہے کہ جس کی بنا پر یہ کہا جا سکے کہ روز قیامت آدمی کو اس کی ماں کے نام سے بلایا جائے گا بلکہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی مذکورہ صحیح حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ آدمی کو اس کے باپ کے نام سے بلایا جائے گا۔جبکہ آیت مبارکہ سے استدلال کی حقیقت اور لفظ 'امام' کی بحث آپ پڑھ آئے ہیں۔
[1] تہذیب السنن: ۷؍۲۵۰ [2] ابوداؤد: ۳۲۲۱،الحاکم: ۱؍ ۳۷۰ اس کی سند حسن درجے کی ہے اور امام حاکم نے صحیح کہا ہے اور امام ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے [3] الفتوحات الربانیہ : ۴؍۱۹۶ [4] صحیح مسلم: ۶؍۲۱۹ ۔ ۲۲۰