کتاب: محدث شمارہ 368 - صفحہ 5
مغربی حکومتیں اور میڈیا اپنے ذرائع ووسائل کے ساتھ کرتے ہیں۔
پاکستان میں جرائم غیرت کے حوالے سے آخری قانون سازی آج سے دس برس قبل اس وقت سامنے آئی جب اکتوبر۲۰۰۴ء میں اقوامِ متحدہ نے اپنے اجلاس نمبر ۶۹کے ایجنڈا نمبر۹۸ کے تحت، اپنے رکن ممالک سے یہ مطالبہ کیا کہ
''وہ 'بیجنگ ڈیکلریشن اینڈ پلیٹ فارم فار ایکشن' اور 'جنر ل اسمبلی کے سپیشل سیشن' کے نتیجے میں تیار ہونے والی دستاویزات پر عمل درآمد کروائیں۔ طبقہ نسواں کے خلاف عزت کے نام پر ہونے والے جرائم کی مختلف شکلوں کو روکنے کے لیے اپنی کوششیں: قانون سازی، انتظامی اقدامات اورمنصوبہ بندی کے تحت جاری رکھیں اور اُنہیں مزید آگے بڑھائیں۔ایسے جرائم کے مقدمات کی فی الفور اور جامع انداز میں تحقیقات کریں اور مرتکبین کےخلاف مؤثر قانونی اقدامات کرتے ہوئے اُنہیں کیفر کردار تک پہنچائیں۔اس سلسلے میں میڈیا کی کوششوں کی حوصلہ افزائی کریں، ایسے پروگراموں کی حوصلہ افزائی کریں جن میں ایسے جرائم کی وجوہ، تدارک، اور اس کے خاتمہ کے لیے متعلقہ افراد مثلاً پولیس، عدلیہ، مقننہ کو ٹریننگ دی جائے۔''[1]
حکومتِ پاکستان نے اس سلسلے میں فوری پیش قدمی کرتے ہوئے، Criminal Law (Amendment) Act, 2004 کے نام سے تین ماہ کے اندر اندر ترمیمی ایکٹ منظور کرلیا، جس پر صدر جنر ل پرویز مشرف نے ۴ جنوری ۲۰۰۵ء کو دستخط ثبت کرکے اسے کتابِِقانون کا حصہ بنا دیا جس میں ''جرائم غیرت کو کارو کاری جیسی رسومات وغیرہ تک وسیع کرتے ہوئے، اس کے مرتکب کو اسلامی قانون قصاص ودیت کی عمل داری سے باہر کر دیا گیا۔ اس میں ورثا کے لیے معافی کا حق سلب کرتے ہوئے، ریاست کو مقتول کا سرپرست بننے کی راہ اپنائی گئی اور سزا کو ۱۵ سال سے بڑھا کر ۲۵ سال قید کردیا گیا۔ بوقتِ ضرورت عدالت قتل غیرت کو، حرابہ یعنی فساد فی الارض اور دہشت گردی کے تحت بھی سماعت کرسکتی ہے۔اس کے لیے اعلیٰ پولیس افسران کی خدمات لینے کے علاوہ، عدالتِ عالیہ صوبائی حکومتوں کے بھی اختیارات استعمال کرسکتی ہے۔''[2]
[1] Crimes of Honor resolution، حوالہ بالا، شق نمبر۳ (الف تا ط)
[2] دیکھیے: گزٹ آف پاکستان، مجریہ ۱۱ جنوری ۲۰۰۵ء، حصہ اوّل، ص ۱ تا ۶