کتاب: محدث شمارہ 368 - صفحہ 49
۲۔ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما : اس حدیث کا ابھی حدیث انس رضی اللہ عنہ کے ضمن میں ذکر ہوچکا ہے اور یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ دو وجوہ کی بنا پر اس حدیث سے دلیل لینا درست نہیں۔ ۳۔ حدیث ابو امامہ رضی اللہ عنہ: یہ ایک طویل حدیث ہے جس میں میت کو دفن کر دینے کے بعد اسے تلقین کرنے کا ذکر ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں: إذا مات أحدکم من إخوانکم فسویتم التراب على قبره فلیقم أحدکم على رأس قبره ثم لیقل: یا فلان بن فلانة، فإنه یسمعه، ولا یجیب ثم یقول: یا فلان بن فلانة ... وفي آخره. فقال رجل: یا رسول اللّٰہ فإن لم یعرف أمه قال: فینسبه إلى حواء، یا فلان بن حواء[1] " جب تمہارے بھائیوں میں سے کوئی مرجائے اور تم اس کی قبر پر مٹی کو برابر کرلو تو تم میں سے کوئی ایک اس کی قبر کے سر پر کھڑا ہو، پھر کہے : اے فلاں ! فلاں عورت کے بیٹے،سویقینا وہ اس کی بات کو سنتا ہے لیکن جواب نہیں دے پاتا۔پھر کہے: اے فلاں!فلاں عورت کے بیٹے،، (اور اس حدیث کے آخر میں ہے) ایک آدمی نے سوال کیا ! یا رسول اللہ ! اگر وہ اس کی ماں کو نہ جانتا ہو؟ فرمایا : وہ اس کو حواءکی طرف منسوب کرے اور کہے: اے فلاں حواءکے بیٹے " مگر اس حدیث کو بطور حجت لینا درست نہیں کیوں کہ یہ سخت ضعیف ہے۔(طبرانی نے سعیدبن عبد اللہ الاودی کی سند سے ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور حافظ ہیثمی رحمہ اللہ نے کہا ہے: "وفي اسناده جماعة لم اعرفه" [2] اس کی سند میں کتنے ہی ایسے راوی ہیں جنہیں مَیں پہچان نہیں سکا۔ یعنی ان کو ان کے تراجم نہیں ملے۔ امام ابن القیم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو اس لیے بھی رد کیا ہے کہ صحیح احادیث کے خلاف ہے چنانچہ لکھتے ہیں: "ولکن هذا الحدیث متفق على ضعفه، فلا تقوم به حجة فضلا عن أن
[1] طبرانی نے المعجم الکبیر:۸؍۲۹۸،حدیث نمبر: ۸۹۸۹) میں روایت کیا ہے اور اس کی سند سخت ضعیف ہے بلکہ موضوع ہے۔ [2] مجمع الزوائد:۳؍۴۸