کتاب: محدث شمارہ 368 - صفحہ 48
تنبیہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ابن بطال کا یہ قول: في هذا الحدیث رد لقول من زعم انهم لا یدعون یوم القیامة إلا بأمهاتهم سترا على آبائهم[1] "اس حدیث (ابن عمر کی جھنڈا نصب کرنے والی مذکورہ حدیث) میں ان لوگوں کے قول کا رد ہے جن کا خیال ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کو ان کی ماؤں کے نام سے بلایا جائے گا کیوں کہ اس میں ان کے باپوں پر پردہ پوشی کی گئی ہے۔" ذکر کرنے کے بعد کہا ہے: "قلت: هو حدیث أخرجه الطبراني من حدیث ابن عباس وسنده ضعیف جدا ، وأخرج ابن عدي من حدیث أنس مثله، وقال: منکر أورده في ترجمة إسحاق بن إبراهیم الطبری"[2] "میں کہتا ہوں کہ اس حدیث کو طبرانی رحمہ اللہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے اور اس کی سند سخت ضعیف ہے۔ ابن عدی رحمہ اللہ نے اس جیسی حدیث انس رضی اللہ عنہ سے بھی روایت کی ہے اور اسے منکر کہا ہے۔ انہوں نے اس کو اسحاق بن ابراہیم طالقانی طبری کے ترجمے میں روایت کیا ہے۔ " میں کہتا ہوں:حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما میں "بأسمائهم" ہے "بأمهاتهم" نہیں۔ اسی طرح حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا "حدیث أنس مثله"کہنا بھی درست نہیں کیوں کہ اس حدیث میں "بأمهاتهم" ہے۔ یہی وہم علامہ ابوالطیب عظیم آبادی سے بھی ہواہے کہ انہوں نے حدیث ابن عبا س رضی اللہ عنہما کو لفظ "بأمهاتهم" سے ذکر کیا ہے،نیز ان سے ایک لغزش یہ بھی ہوئی ہے کہ انہوں نے کہا ہے کہ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما کو طبرانی نے بسند ضعیف روایت کیا ہے جیسا کہ ابن قیم رحمہ اللہ نے حاشیۃ السنن میں کہا ہے جبکہ ابن قیم رحمہ اللہ نے حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ذکر تک نہیں کیا بلکہ انہوں نے حدیث ابوامامہ رضی اللہ عنہ کا ذکر کیاہے جو عنقریب آرہی ہے۔[3]
[1] فتح الباری:۱۰؍۵۶۳؛ شرح البخاری لابن بطال : ۹؍۳۵۴ [2] فتح الباری : ۱۰؍۵۶۳ [3] عون المعبود:۸؍۲۸۳ اور تہذیب السنن: ۷؍۲۵۰