کتاب: محدث شمارہ 368 - صفحہ 46
حقیقت کے برعکس ہے کیوں کہ ان کی بغیر باپ کے تخلیق، ان کے لیے معجزہ اور عظیم شرف ہے۔'' بعض دیگر علمانے بھی مذکورہ تمام حکمتوں کا ردّ کیا ہے اور بعض نے اس ردّ کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔[1] ’امام‘ کی درست تفسیر یہاں لفظ إمام كى نامور مفسرین نے چار تفسیریں کی ہیں مگر ان میں سے سب سے معتبر تفسیر یہ ہے کہ یہاں ’امام‘ سےمراد آدمی کا اعمال نامہ کیوں کہ ﴿ يَوْمَ نَدْعُو كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ﴾ ’’تو جسےاس کا نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں دیا گیا۔‘‘ کے بعد اللہ عزوجل نےفرمایا ہے : ﴿فَمَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ ﴾حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اسی تفسیر کو اختیار کیا ہے اور علامہ شنقیطی رحمہ اللہ نے ان کی تائید کی ہے۔ [2] فائدہ : امام کی تفسیر اور پیشوا سے بھی کی گئی ہے،جیسا کہ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتےہیں : وَقَالَ بَعْضُ السَّلَفِ: هَذَا أَكْبَرُ شَرَفٍ لِأَصْحَابِ الْحَدِيثِ؛ لِأَنَّ إِمَامَهُمُ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ[3] ’’بعض سلف نے کہاہےکہ یہ اصحاب حدیث کے لیےبہت بڑا شرف ہے کیوں کہ ان کے امام نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔‘‘ ۲۔دوسری دلیل: بعض کمزور بلکہ، سخت ضعیف قسم کی روایات ہیں جو درج ذیل ہیں : ۱۔ حدیث انس جس کے الفاظ یہ ہیں: یدعى الناس یوم القیامة بأمهاتهم سترا من اللّٰہ عز وجل علیهم[4] ''روز قیامت اللہ کی طرف سے ستر پوشی کرتے ہوئے لوگوں کو ان کی ماؤں کے نام سے پکارا جائے گا۔'' اس حدیث کو ابن جوزی رحمہ اللہ نےالموضوعات[5] میں روایت کیا ہے اور اس کو علامہ ذہبی رحمہ اللہ نےمیزان الاعتدال [6]
[1] تفسیر روح المعانی للآلوسی: ۱۵؍۱۲۱ [2] تفسیر ابن کثی: ۵؍ ۱۲۷؛ اضواء البیان: ۲؍ ۳۲۲ [3] ابن کثیر : ۵؍ ۱۲۶ [4] الکامل فی الضعفاء از ابن عدی : ۱؍ ۳۳۶ [5] الموضوعات:۳؍۲۴۸ [6] میزان الاعتدال :۱؍۱۷۷