کتاب: محدث شمارہ 368 - صفحہ 45
کے ناموں سے۔'' ان کے اس قول کو امام بغوی رحمہ اللہ اور امام قرطبی رحمہ اللہ نے ذکر کیاہے اور کہا ہے کہ اس میں تین حکمتیں ہیں : عیسی کی وجہ سے، حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کے شرف کی بنا پر اور اولادِ زنا کی عدم رسوائی کی وجہ سے۔[1] مگرمحمد بن کعب کے اس قول کے بارے میں علامہ شنقیطی رحمہ اللہ نے کہا ہے: قول باطل بلا شك، وقد ثبت في الصحیح من حدیث ابن عمر[2] "یہ قول بلا شک وشبہ باطل ہے، حالانکہ صحیح بخاری میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث سے ثابت ہے ...۔" اس کے بعد اُنہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کی مذکورہ حدیث کا ذکر کیا ہے۔ اسی طرح زمخشری رحمہ اللہ نے بھی امام کی تفسیر "أمهات" سے کی ہے۔ چنانچہ لکھا ہے: ومن بدع التفسیر أن الإمام جمع الأم، وإن الناس یدعون بأمهاتهم[3] "انوکھی تفسیر وں میں سے ایک تفسیر یہ ہے کہ 'امام' اُمّ کی جمع ہے اورلوگوں کوقیامت کے دن ان کی ماؤں کے نام سے پکارا جائے گا..." زمخشری کی اس انوکھی تفسیر کا ردّ امام نا صرالدین احمد بن منیر مالکی نے ان الفاظ میں کیا ہے: ولقد استبدع بدعا لفظا ومعنی، فإن جمع "الأم" المعروف الأمهات، إما رعایة عیسی (علیه السلام) بذکر أمهات الخلائق لیذکر بأمه فیستدعی أن خلق عیسی (علیه السلام ) من غیر أب غمیزة في منصبه، وذلك عکس الحقیقة، فإن خلقه من غیر أب کان له آیة، و شرفًا في حقه، واللّٰہ أعلم[4] "زمخشری رحمہ اللہ نے لفظی اور معنوی بدعت کا سہارا لیا ہے،کیوں کہ اُمّ کی معروف جمع(امام نہیں بلکہ) 'امہات'ہے۔رہا عیسی کا خیال رکھتے ہوئے لوگوں کو ان کی ماؤں کے نام سے پکارنا تاکہ عیسی کی ماں کا ذکر کیا جائے تو امام زمخشری رحمہ اللہ کا یہ کہنا اس بات کا متقاضی ہے کہ عیسی کی بغیر باپ کے پیدائش کے تذکرے سے ان کے منصب پر حرف آتا ہے، حالانکہ یہ
[1] معالم التنزیل للبغوی: ۵؍ ۱۱۰؛ الجامع لاحکام القرآن للقرطبی:۵؍۶۲۸ [2] اضواءالبیان لمحمد الامین الشنقیطی:۲؍۳۲۲ [3] تفسیر الکشاف: ۲؍۳۶۹ [4] الانتصاب فیما تضمنہ الکشاف من الاعتزال: ۲/۳۶۹ بھامش الکشاف