کتاب: محدث شمارہ 368 - صفحہ 44
صورت میں اُن کے باپوں کا پتہ نہیں چلے گا جبکہ حدیث مذکور اُن کے اس قول کے خلاف ہے۔"[1] علاوہ ازیں دیگر محدثین اور شارحین حدیث نے بھی اس بات کا رد کیا ہے کہ روز قیامت لوگوں کے نام کے ساتھ ان کی ماں کا نام آئے گا۔ اس بارے میں ایک صریح حدیث بھی ہے مگر وہ اسناد ی اعتبار سے ضعیف ہونے کی بنا پر قابل استدلال نہیں ہے۔وہ حدیث سيدنا ابو درداء سے بایں الفاظ مروی ہے: ((إنکم تدعون یوم القیامة بأسمائکم وأسماء آبائکم فأحسنوا أسمائکم)) [2] "یقیناً تم قیامت کے دن اپنے اور اپنے آباء کے نام سے بلائے جاؤگے، چنانچہ تم اپنے اچھے اچھے نام رکھو۔" اسے امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے عبداللہ بن ابی زکریا از ابوالدرداء کی سند سے روایت کیا ہے۔ اس کی سند ضعیف اس لیے ہے کہ ابن ابی زکریا نے ابودرداء کا زمانہ نہیں پایا۔جیساکہ امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد صراحت کی ہے اورحافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی فتح الباری (۱۰؍۵۷۷) میں اسی طرح کہا ہے اور حافظ منذری رحمہ اللہ نے مختصر السنن (۷؍۵۷۱)میں کہا ہے کہ ان کا ابودرداء سے سماع نہیں ہے۔ دوسرا موقف اور ان کے دلائل جن علمانے کہا ہے کہ قیامت کے دن آدمی کو اُس کی ماں کے ناموں سے بلایا جائے گا، باپ کے نام سے نہیں۔ ان کے درج ذیل دلائل ہیں: ۱۔ پہلی دلیل: اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا یہ ارشاد :﴿ يَومَ نَدعوا كُلَّ أُناسٍ بِإِمٰمِهِم﴾ [3] " جس دن ہم سب لوگوں کو ان کے امام کے ساتھ بلائیں گے۔" محمد بن کعب نے بإمامهمکی تفسیر میں کہا ہے: قیل یعني بأمهاتهم کہا گیا ہے ''یعنی ان کی ماؤں
[1] شرح البخاری لابن بطال : ۹؍۳۵۴و ایضا؛ فتح الباری: ۱۰؍۵۶۳ [2] اس حدیث کو امام احمد :۵؍۱۹۴؛ ابوداؤد:۴۹۴۸؛ابن حبان:۷؍۵۲۸؛بغوی شرح السنہ: ۱۲؍۳۲ [3] سورة الإسراء: ٧١