کتاب: محدث شمارہ 368 - صفحہ 42
پھیر دیا ہو پھر بعد میں یاد آیا ہو اور اس کے بعد نماز پوری کرچکا ہو تو چونکہ دوران نماز اس نے ایک سلام کا اضافہ کر دیا ہے، لہٰذا سلام کے بعد سجدہ سہوکرے گا، اس لیے کہ حضرت ابوہریرہ سے حدیث مروی ہے جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر یا عصر کی نماز میں دو ہی رکعت پر سلام پھیر دیا تھا، بعد میں جب لوگوں نے آپ کو یاد دلایا تو آپ نے نماز پوری کی، سلام پھیرا۔ اس کے بعد سجدہ سہو کیا اور آخری سلام پھیرا۔ یہ حدیث پیچھے گزر چکی ہے۔ ۲۔ جب نماز میں ایسا شک ہو کہ اس میں ایک طرف کا رجحان پایا جائے، اس کی دلیل عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی وہ حدیث ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم دیا کہ جسے اپنی نماز میں شک ہو جائے، اسے صحت کی جستجو کرنی چاہیے اور اسی پر اپنی نماز پوری کرنی چاہیے، اور سلام کے بعد سجدہ سہو کرنا چاہیے، یہ حدیث پہلے گزر چکی ہے۔ اگر کسی آدمی سے دو سہو سرزد ہو جائیں جس میں سے ایک سہو سلام سے پہلے سجدہ سہو واجب کرتا ہو اور دوسرا سہو سلام کے بعد سجدہ سہو واجب کرتا ہو تو علماے کرام کا کہنا ہے کہ سلام سے پہلے والے سجدہ سہو کو غالب قرار دے کر سلام سے پہلے سجدہ سہو ادا کیا جائے گا۔ اس کی صورت یہ ہے کہ ایک شخص ظہر کی نماز پڑھ رہا ہے اور جب تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہوتا ہے، تشہد او ل کے لیے بیٹھنا بھول جاتا ہے اور تیسری رکعت کے بعد تیسری رکعت کو دوسری رکعت سمجھ کر اس کے بعد تشہد اول کرتا ہے، ایسے موقع پر وہ کھڑا ہو جائے اور چوتھی رکعت پوری کر کے سجدہ سہو کرے گا اور اخیر میں سلام پھیرے گا۔ چونکہ اس شخص نے تشہد اول کو چھوڑ دیا ہے جس کا سجدہ سہو سلام سے پہلے ہوتا ہے اور تیسری رکعت کے بعد ایک جلسہ کا اضافہ کر دیا ہے جس کا سجدہ سہو سلام کے بعد ہے، لہٰذا سلام سے پہلے والےسجدہ سہو کو غالب مان کر اسی پر عمل کرے گا۔[1]واللہ اعلم
[1] ترجمہ 'رسالۃ فی سجود السہو' از مجموع فتاویٰ ورسائل العثیمین:۱۴؍۹۴ تا ۱۰۵