کتاب: محدث شمارہ 368 - صفحہ 41
تنبیہ پچھلے صفحات میں یہ بات واضح ہوگئی کہ سجدہ سہو کبھی سلام سے پہلے ہوتا ہے اور کبھی سلام کے بعد۔ سلام سے پہلے دو جگہوں پر ہوتا ہے: سجدہ سہو سلام سے پہلے کب؟ ۱۔ جب کوئی نقص (کمی) ہو جائے، اس بارے میں حضرت عبد اللہ بن بحینہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب تشہد اول چھوڑ دیا تھا تو سجدہ سہو سلام سے پہلے فرمایا تھا۔ یہ پوری حدیث پیچھے گذر چکی ہے۔ ۲۔ جب سجدہ سہو ایسے شک کی وجہ سے واجب ہو جس میں کسی ایک طرف اس کا رجحان نہ ہو سکے، اس بارے میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث گذر چکی ہے کہ جسے اپنی نماز میں شک ہو جائے اور یہ نہ معلوم ہو کہ کتنی رکعت پڑھی ہیں، تین یا چار؟ اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم دیا ہے کہ سلام سے پہلے اس پر دو سجدہ سہو واجب ہے، یہ حدیث بھی گذر چکی ہے۔ سجدہ سہو سلام کے بعد کب؟ اسی طرح سلام کے بعد بھی سجدہ سہو دو جگہوں پر واجب ہوتا ہے: ۱۔ جب نماز میں زیادتی کی وجہ سے سجدہ سہو واجب ہو، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز پانچ رکعت پڑھا دی تھی، سجدہ سہو سلام کے بعد ہونا چاہیے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم نماز کے بعد ہی ہوا تھا، لہٰذا سلام کے بعد جب یاد آیا تو آپ نے دو سجدے کیے، پھر سلام پھیرا اور اس کی وضاحت نہیں کی کہ سجدہ سہو سلام کے بعد ہونا چاہیے کیونکہ آپ کو اس کا علم نماز کے بعد ہی ہوا تھا، لہٰذا عمومی حکم سے یہ معلوم ہوا کہ نماز میں زیادتی سے جو سجدہ سہو واجب ہوتا ہے وہ سلام کے بعد ہی ہوتا ہے، چاہے اس سہو کا علم سلام سے پہلے ہوا ہو یا سلام کے بعد۔ اسی طرح کا مسئلہ یہ بھی ہے کہ جب ایک نمازی نے اپنی نماز پوری کرنے سے پہلے بھول کر سلام