کتاب: محدث شمارہ 368 - صفحہ 40
پھر سلام پھیرے گا اس کے بعد سجدہ سہو کر کے آخری سلام پھیرے گا۔ جیسے ایک شخص جماعت کی آخری رکعت میں جا کر جماعت میں شامل ہوتا ہے اور امام صاحب پر سلام کے بعد سجدہ سہو واجب ہوتا ہے، لہٰذا جب امام سلام پھیرے گا تو اس مسبوق کو اپنی نماز پوری کرنے کےلیے کھڑا ہونا پڑے گا اور امام کے ساتھ سجدہ سہو نہیں کرے گا، لہٰذا جب اپنی باقی ماندہ نماز پڑھ لے گا اور سلام پھیر دے گا تو سلام کے بعد سجدہ سہو کرے گا۔ اور اگر مقتدی سے امام کے پیچھے سہو ہو جائے اور امام کو کچھ سہو نہ ہو اور مقتدی کی نماز میں سے کچھ چھوٹا نہ ہو اس پر سجدہ سہو واجب نہیں۔ اس لیے کہ اس کے سجدہ سہو سے امام سے اختلاف لازم آئے گا اور امام کی اتباع میں خلل پڑے گا۔ اس لیے کہ صحابہ کرام نے اس وقت تشہد اول چھوڑ دیا تھا جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم اسے بھول گئے تھے، لہٰذا وہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑے ہو گئے تھے اور امام کی اتباع اور امام سے عدم اختلاف کے خیال سے تشہد کے لیے بیٹھے نہیں تھے۔ لیکن اگر اس سے امام کی اقتدا کے دوران نماز کا کچھ حصہ چھوٹ جائے یا چھوٹی ہوئی نماز کی تکمیل کے وقت اس سے سہو ہو جائے تو سجدہ سہو اس سے ساقط نہ ہو گا، لہٰذا جب وہ چھوٹی ہوئی نماز پوری کرے گا تو سلام سے پہلے یا سلام کے بعد مذکورہ تفصیل کے مطابق سجدہ سہو کرے گا۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ایک مقتدی رکوع میں سبحان ربي العظيم کہنا بھول گیا، اور نماز کا کوئی حصہ اس سے نہیں چھوٹا تو اس پر سجدہ سہو واجب نہیں اور اگر اس سے ایک رکعت یا ایک سے زیادہ رکعت چھوٹ جائے تو اسے پوری کرے گا، پھر سلام سے پہلے سجدہ سہو کرے گا۔ دوسری مثال: ایک مقتدی اپنے امام کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھ رہا تھا جب امام صاحب چوتھی رکعت کے لیے کھڑے ہوئے تو مقتدی اس خیال سے بیٹھ گیا کہ یہ آخری رکعت ہے۔ پھر جب اسے معلوم ہوا کہ امام کھڑا ہے تو وہ بھی کھڑا ہو گیا، اس صورت میں اگر اس سے نماز کا کوئی حصہ نہ چھوٹا ہو تو اس پر سجدہ سہو واجب نہیں اور اگر ایک یا اس سے زیادہ رکعت اس سے چھوٹ جائے تو اسے پوری کرے گا اور سلام پھیر کر سجدہ سہو کرے گا، پھر سلام پھیرے گا۔ یہ سجدہ سہو اس پر صرف اس لیے واجب ہو گا کہ امام چوتھی رکعت کے لیے کھڑا ہوا تو امام کے اثنائے قیام میں وہ بیٹھا رہا اور یہ بیٹھنا نماز میں اضافہ کرنا ہے، جس کی وجہ سے یہ سجدہ سہو واجب ہوا۔