کتاب: محدث شمارہ 368 - صفحہ 39
لیے کہ یہاں سجدہ سہو واجب کرنے والا سبب یعنی شک ختم ہو گیا ہے۔ بعض اہل علم نے یہ بھی کہا ہے کہ اس سے سجدہ سہو ساقط نہ ہو گا، اس لیے کہ اس صورت میں سجدہ سہو کرنے سے شیطان کی تذلیل ہوتی ہے، جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اور اگر اس نے پوری نماز پڑھی تو یہ دونوں سجدہ سہو شیطان کی تذلیل کے لیے ہوں گے۔'' اس لیے کہ اس نے اپنی نماز کے بعض حصہ کو شک کی حالت میں ادا کیا ہے، یہی راجح قول ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص نے نماز شروع کی اور ایک رکعت میں اس کو شک ہو گیا کہ آیا یہ رکعت دوسری ہے یا تیسری؟ اور ان دونوں میں سے کوئی بھی اس کے نزدیک راجح نہ ہو سکا، لہٰذا اس پر واضح ہو گیا کہ واقع میں وہ دوسری رکعت تھی، لہٰذا مشہور قول کے مطابق اس پر سجدہ سہو نہیں ہے اور دوسرے قول کے مطابق اس پر سجدہ سہو اس میں بھی واجب ہے اور اسی کو ہم نے راجح قرار دیا ہے۔ مقتدی پر سجدہ سہو جب امام کو نماز میں سہو ہو جائے تو امام صاحب کے سجدہ سہو میں مقتدی کو بھی اتباع کرنا واجب ہے، حضرت ابوہریرہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مروی ہے: (( إِنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ ، فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا ، وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا ، وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا )) [1] ''امام اسی لیے بنایا گیا ہے تاکہ اس کی اتباع کی جائے، لہٰذا تم اس سے اختلاف نہ کرو، پھر آگے فرمایا: جب امام سجدہ سہو کرے تو تم بھی سجدہ کرو۔'' امام سجدہ سہو سلام سے پہلے یا سلام کے بعد کرے تو مقتدی پر اس کی اتباع ضروری ہے، الا یہ کہ مقتدی مسبوق ہو یعنی اس کی نماز کا کچھ حصہ چھوٹ چکا ہو تو سلام کے بعد والے سجدہ سہو میں وہ امام صاحب کی اتباع نہیں کرے گا، اس لیے کہ یہ اس کے لیے ممکن ہی نہیں، اس لیے کہ مسبوق اپنے امام کے ساتھ سلام نہیں پھیر سکتا ہے، لہٰذا وہ امام کے سلام کے بعد اپنی باقی ماندہ نماز پوری کرے گا،
[1] صحیح بخاری:۳۷۸