کتاب: محدث شمارہ 368 - صفحہ 38
نہیں ہوتا۔ پہلی حالت: اس کو اس کا یقین ہو جاتا ہے کہ اس نے امام کو رکوع کی حالت میں پایا ہے، اور اس کے جماعت میں شامل ہوتے وقت امام نے اپنا سر رکوع سے نہیں اٹھایا تھا تو اس حالت میں وہ اس رکعت کا پانے والا سمجھا جائے گا اور فاتحہ کا پڑھنا اس سے ساقط ہو جائے گا۔[1] دوسری حالت: اس کو اس بات کا یقین ہو جاتا ہے کہ وہ جب جماعت میں شامل ہوا تو اس کے شامل ہونے سے پہلے ہی امام رکوع سے اپنا سر اُٹھا چکا تھا، اس صورت میں یہ رکعت اس سے چھوٹ جائے گی۔ تیسری حالت: تیسری صورت یہ ہے کہ اس کو اس بات میں شک ہو جاتا ہے کہ اس نے امام صاحب کے رکوع کی حالت میں پایا تھاکہ امام صاحب رکوع سے سر اٹھا چکے تھے، لہٰذا اس کی وہ رکعت چھوٹ جائے گی، اس طرح شک میں جو حالت بھی اس کے نزدیک راجح ہو اس پر عمل کرے گا اور اسی کے مطابق اپنی نماز پوری کر کے سلام پھیرے گا۔ پھر سجدہ سہو کر کے سلام پھیرے گا اور اگر اس سے نماز کا کچھ بھی حصہ چھوٹا نہیں تو پھر اس پر کوئی سجدہ نہیں۔ اور اگر کوئی حالت راجح نہ ہو تو یقین پر عمل کرے گا، یعنی یہ سمجھ کر کہ اس سے وہ رکعت چھوٹ ہی گئی ہے، لہٰذا اسی کے مطابق اپنی نماز کو پوری کرے گا اور سلام سے پہلے سجدہ سہو کرے گا اور سجدہ سہو کے بعد سلام پھیرے گا۔ فائدہ ایک شخص کو اپنی نماز میں شک ہو جاتا ہے کہ کتنی پڑھی، لہٰذا وہ یقینی حالت پر یا اس کے نزدیک جو راجح ہے اس پر مذکورہ تفصیل کے مطابق عمل کرتا ہے، پھر بعد میں نماز کے اندر اس پر یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اس نے جو عمل کیا ہے وہ حقیقت حالت کے مطابق ہے اور اس کی نماز میں کوئی کمی وبیشی نہیں ہوئی ہے تو اس صورت میں اس سے سجدہ سہو ساقط ہو جائے گا، اکثر علماء کا اس پر فتویٰ ہے، اس
[1] ''فاتحہ کا پڑھنا ساقط ہو جائے گا۔'' یہ شیخ رحمہ اللہ کا موقف ہے۔ جبکہ احادیث میں صراحت ہے: ((لاصلاةَ لمن يقرأ بفاتحة الكتاب)) ''جس نے فاتحہ نہ پڑھی، اس کی نماز نہیں۔'' صحیح بخاری: ۷۲۳ (ادارہ)