کتاب: محدث شمارہ 368 - صفحہ 36
۳۔ جب یہ شک عبادات سے فارغ ہونے کے بعد لاحق ہو تو اس کا بھی کوئی اعتبار نہ ہو گا، جب تک کہ یقینی حالت نہ پیدا ہو جائے اور اگر یہ شک یقین میں تبدیل ہو جائے تو یقین کے مطابق اپنا عمل کرے گا۔ مثال کے طور پر ایک شخص نے ظہر کی نماز پڑھی اور نماز سےفارغ ہونے کے بعد اس کو شک ہو گیا کہ اس نے تین رکعت پڑھی ہیں یا چار رکعت، اس حالت میں اس شک کا کوئی اعتبار نہ ہوگا۔الا یہ کہ اس کو یہ یقین ہو جائے کہ اس نے تین ہی رکعت پڑھی ہیں۔ لہٰذا اگر نماز پڑھے ہوئے زیادہ دیر نہیں ہوئی تو ایک رکعت اور پڑھ کر اپنی نماز مکمل کرے گا پھر سلام پھیر کر سجدہ سہو کرے گا، پھر اخیر میں سلام پھیرے گا۔ اور اگر بہت دیر کے بعد اس کو تین رکعت کا یقین ہوا تو از سر نو نماز پڑھے گا، ان تین حالتوں کے علاوہ دوسری جگہوں میں شک کا اعتبار ہو گا۔ نماز میں جو شک ہوتا ہے وہ دو حالتوں سے خالی نہیں: پہلی حالت: دو حالتوں میں سے ایک کا راجح ہونا، لہٰذا جو حالت اس کے نزدیک راجح ہو گی اس کے مطابق عمل کرے گا اور اسی پر اپنی نماز پوری کرے گا۔ پھر سلام کے بعد سجدہ سہو کرے گا اور اس کے بعد آخری سلام پھیرے گا۔ جیسے ایک شخص ظہر کی نماز پڑھتا ہے اور کسی رکعت کے بارے میں اس کو شک ہو جاتا ہے کہ آیا وہ دوسری رکعت ہے یا تیسری، لیکن آخر کار یہ راجح ہو جاتا ہے کہ یہ تیسری رکعت ہے، لہٰذا وہ اس کو تیسری رکعت مان کر ایک رکعت اور پڑھے گا اور سلام پھیرے دے گا، پھر سجدہ سہو کر کے آخری سلام پھیرے گا۔ اس مسئلہ کی دلیل عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی وہ حدیث ہے جسے صحیحین میں نقل کیا گیاہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اگر تم میں سے کسی کو نماز میں شک ہو جائے تو صواب ودرستگی تک پہنچنے کی بھر پور کوشش کرے اور جو راجح ہو اس پر اپنی نماز پوری کرے، پھر سلام پھیرے اس کے بعد