کتاب: محدث شمارہ 368 - صفحہ 25
الأَعلَى ﴾ ٰ" پھر مذکورہ سورتوں کی اس الہامی ترتیب میں یہ خاص حکمت پوشیدہ ہے کہ پہلے لفظ سُبحٰن استعمال ہوا جو کہ مصدر ہے اور اصل شے ہے، پھر سَبَّحَ کا فعل ماضی آ گیا، پھر يُسَبِّحُ کافعل مضارع اور آخر میں سَبِّحْ کا فعل امر مستعمل ہوا۔ گویا اس ترتیب نے ہر اعتبار اور ہر جہت سے بلکہ زمان ومکان کے ہر لمحے اور گوشے میں صفاتِ الٰہیہ کا سلبی اور تنزیہی پہلو اُجاگر کر دیا ہے۔ کلامِ الٰہی کا یہی وہ اعجاز ہے جس کے آگے انسانی کلام کی فصاحت وبلاغت سرنگوں ہے۔ ۲۔ وہ سورتیں جن کے شروع میں حروفِ تہجی (یا حروفِ مقطعات) آئے ہیں جن سورتوں کے آغاز میں حروفِ تہجی یا حروفِ مقطعات آئے ہیں، ان کی تعداد اُنتیس ہے اور ان کی تفصیل یہ ہے: حروفِ تہجی یا حروف مقطعات وہ سورتیں جن کی ابتداء میں یہ وارد ہوئے الم البقرۃ، آل عمران، العنکبوت، الروم، لقمان، السجدة المص الاعراف الر یونس، ہود، یوسف، ابراہیم، الرعد، الحجر طٰهٰ طہٰ طٰس النمل طسم الشعراء، القصص حم المؤمن، حم السجدہ (فصلت)، الزخرف، الدخان، الجاثیہ، الاحقاف حم عسق الشوریٰ ق ق ن القلم ص ص یس یس كهيعص مریم