کتاب: محدث شمارہ 368 - صفحہ 22
کی بجائے ہر مسئلہ کا حکم جداگانہ طور پر دیکھا جاتا ہے۔
۴۔ نوعیت جرم: غیرت کے نام پر کسی بھی ابتدائی یا سنگین تر صورت میں بھی قانون کو ہاتھ میں لیتے ہوئے قتل نہیں کیا جاسکتا، ایسا کرنا شرعاً ممنوع اورگناہ ہے، تاہم وقوعہ بدکاری کے دوران اس کو روکنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ معاشرے میں قانون ہاتھ میں لینے جیسے واقعات بڑھ جانے کی صورت میں اس کے انسداد کے لیے بھی تعزیری سزا نافذ کی جانی چاہیے۔
۵۔ جرائم غیرت، سابقہ جرائم کا رد عمل ہیں، اس کی قانونی وشرعی حیثیت کا تعین سابقہ جرائم کی روشنی میں ہی ہوگا۔
۶۔ اگر کوئی غیرت کے نام پر قتل کربیٹھے تو اس کے سلسلے میں قانونی وشرعی تقاضے پورے کرنے چاہئیں۔ بدکاری واقع ہونے کی صورت میں قاتل کو ثبوت مہیا کر دینے پر سزا میں رعایت ملے گی۔ [اس کی بعض سنگین تر صورتوں میں، جن میں مقتولین بالکل معصوم ہوں، قتل عمد کے ساتھ حرابہ (فساد فی الارض) کی سزا بھی شامل کی جاسکتی ہے۔ تاہم اس کی ہر صورت قتل عمد نہیں، جب کہ شادی شدہ شخص کی بدکاری ثابت ہونے پر وہ معصوم الدم نہ رہے، بلکہ شبہ واحتمالِ گناہ پیدا ہونے کی بنا پر یہ قتل خطا کے ذیل میں بھی چلا جاتا ہے۔]
۷۔ ورثا کو معافی یا دیت وصول کرنے کے حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا، یہ شریعتِ اسلامیہ سے کھلا انحراف ہے۔ غیرت کے نام پر قتل وغیرہ کی صورت میں بھی شریعت نے اس حق سے اُنہیں محروم نہیں کیا۔
۸۔ حدود اللہ کا اپنی روح سے بروقت نفاذ ہی مسائل کا حقیقی خاتمہ کرسکتا ہے۔ موجودہ صورتحال کی اصل وجہ سماجی تضادات اورقانون و طریقہ اجرا کی اُلجھنیں ہیں، جن میں مزید شدت پیدا کرنے کی بجائے قانون کو متوازن،اورطریقۂ نفاذ کو بامقصد کرکے مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
خلاصہ: پاکستانی رسوم ورواج میں غیرت کے نام پر ہونے والے جرائم کی بہت سی شکلوں کی سزا قتل نہیں،یہ غیرت کا ناجائز استعمال ہے۔غیرت کے نام پر قتل کا ارتکاب شرعاًممنوع ہے،تاہم ایسے قتل کی سزا، سابقہ جرم کی روشنی میں،قانون وشرع کے تقاضوں کے مطابق دی جائے گی، اور عملاً بدکاری ثابت کردینے پر مجرم کو سزا میں رعایت ملے گی۔قانون کو مزید سخت کرنے کی بجائے قانون کو شرع کے مطابق بنا کر، حدود اللہ کے ساتھ عملاً نافذ کیا جائے۔ہذا ما عندی واللّٰہ اعلم بالصواب