کتاب: محدث شمارہ 368 - صفحہ 21
۴۔ اس کو وحشت ناک انداز میں اینٹیں مار کرموت کے گھاٹ اُتارنا دہشت گردی کے مترادف ہے، اس لیے ان مجرموں پر سابقہ دو سزاؤں کے ساتھ حرابہ(فساد فی الارض) کی مزید سزا بھی عائد کی جاسکتی ہے۔
۵۔ یہ سزائیں فوری بنیادوں پر نافذ کی جانی چاہئیں، انصاف کو مؤخر کرنا بھی ناانصافی کے مترادف،قانون شکنی کی حوصلہ افزائی اور مزید جرائم کے امکانات پیدا کرتا ہے۔
میڈیا کے مطابق اس واقعہ میں دہشت گردی کی عدالت نے چار قاتلوں کو تین تین مرتبہ سزائے موت، اور ایک ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے،ان چار قاتلوں میں فرزانہ کے والد، بھائی، کزن اور سابقہ منگیترشامل ہیں جبکہ ایک بھائی غلام احمد کو ۱۰ سال قید کی سزا دی گئی ہے۔[1]
فرزانہ کے کیس کا تو شریعت وقانون کی نظر میں فیصلہ ہوچکا،جس میں بعض چیزیں خلافِ شریعت بھی ہیں، مثلاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح فرمان کی رو سے باپ کو قصاص میں قتل نہیں کیا جاسکتا، اس کو دیت ہی ادا کرنا ہوتا ہے۔ تاہم اُصولی طور پرحکومتِ پنجاب کو درج ذیل اُمور کو پیش نظر رکھ کر قانون سازی کرنا چاہیے۔
سفارشات
۱۔ 'غیرت' شرعی طور پر ایک پسندیدہ اور مطلوب چیز ہے، جیساکہ اللہ تعالیٰ، رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمان غیرت مند ہیں۔بے غیرتی قابل مذمت امر ہے۔ تاہم اس جذبے کو درست اور شریعت کی حدود میں رہناچاہیے اور اس کے ناجائز استعال کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے۔
۲۔ بےحیائی،فحاشی اور خفیہ یارانے وغیرہ کی روک تھام کی قانون سازی کرنی چاہیے اور ان مبادیاتِ زنا کی تعزیری سزا جاری کرنا چاہیے۔ غیرت کے جرائم، ایک سابقہ جرم کا ردعمل ہیں، اگر عمل کو کنٹرول کرلیا جائے تو ردعمل میں بھی توازن پیدا کیا جاسکتا ہے۔
۳۔ قانون میں غیرت کی تعریف کرتے ہوئے جن بہت سے جرائم کویکجا کردیا گیا ہے، ان سب کا حکم شرعاً ایک نہیں۔ان میں بعض صریحاً قتل، ظلم اور زیادتی ہیں، اور بعض میں جرم کی شدت کم ہے، مثلاً خفیہ یارانے اور میل جول وغیرہ۔ شریعتِ اسلامیہ میں 'غیرت کے نام سے جرائم '
[1] بی بی سی، اُردو سروس، لندن... مؤرخہ ۱۹ نومبر ۲۰۱۴ء