کتاب: محدث شمارہ 368 - صفحہ 20
انہیں عدالتوں سے داد رسی کی اُمید نہیں ہوتی۔جہاں تک نرے قانون کی بات ہے تو 'کریمنل لاء امینڈمنٹ ایکٹ۲۰۰۴ء' میں، وہ تمام ترامیم کر دی گئی ہیں جو اب پیش کی جاری ہیں، یعنی اسے قتل عمد قرار دینا اور ورثا سے قتل غیرت کی صورت میں معافی کا حق واپس لینا۔ لیکن آج دس برس بعد اس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ اب مزید قانون کی سختی سے کیا حاصل، جب وہ مذہب ومعاشرہ سے ہی متصادم ہو۔ شریعتِ اسلامیہ میں اس کا عین منصفانہ حل موجود ہے، بےراہ روی کی مذمت اور روک تھام، عشق وفسق اور آزادانہ اختلاطِ مردوزن پر پابندی، بوس وکنار اور مبادیاتِ زنا پر تعزیری سزائیں۔ اس کے بعد بھی اگر کہیں کوئی قانون کو ہاتھ میں لے تو اس معاملہ پر اسے سزا دی جائے، تاہم اگر وہ اپنے اقدام کو قانونی طور پر ثابت کردیتا ہے، تو اسے صرف مزید زیادتی کی سزا دی جائے، اور شرع وقانون کے تقاضے فوری طور پر پوری کیے جائیں۔ہمارا موجودہ قانونی نظام دیگر بہت سے معاشرتی مسائل مثلاً دہشت گردی، چوری چکاری سمیت اس پیچیدگی کو حل کرنے میں ناکام نظر آتا ہے، اس نظام کو سادہ تیز تر اور انصاف پر قائم کیا جائے۔ صرف قانون کو سخت سے سخت تر بنانے سے مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ حالیہ واقعہ کا شرعی حل پیش نظر واقعہ جس میں فرزانہ کو بہیمانہ طور پر قتل کردیا گیا، اس میں راقم کا موقف یہ ہے کہ اس کیس میں شادی کے بعد زنا کا مسئلہ ختم ہوجاتا ہے، گو کہ والدین سے بغاوت کرکے کی جانے والی شادی اور اس سے قبل خفیہ یارانے ضرور مشکوک اور قابل گرفت ہیں۔ تاہم فرزانہ کے اس الم ناک انجام میں درج ذیل زیادتیاں ہوئی ہیں : ۱۔ فرزانہ اور اقبال کا خفیہ یارانہ اور فسق وعشق ان سارے مسائل کی جڑ ہے، جس کا تدارک نہیں کیا گیا۔ ۲۔ اس کے ورثا کا قانون کو ہاتھ میں لے کر، اسے خود قتل کردینا ایک غلط رویّہ ہے۔ ۳۔ سابقہ مشکوک اقدامات پر قتل کرنا بھی زیادتی ہے، جسے قتل کا مقدمہ ہی قرار دیا جائے گا، الا یہ کہ قاتلین، مقتولہ کی بدکاری ثابت کردیں۔ اگر وہ ایسا نہ کرسکیں تو زیادہ سے زیادہ رعایت کی صورت میں یہ قتل خطا کی صورت بنتی ہے۔