کتاب: محدث شمارہ 368 - صفحہ 19
غیرت کے نام پر ان جرائم کو کو صرف قانونی نقطہ نظر سے روکنے یا جائزہ لینے کی بجائےاس سے پہلے ان تمام مراحل کو کنٹرول کرنا ضروری ہے۔ اور اس نازک موڑ پر ہمیں یہی فیصلہ کرنا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ہم عشق ومحبت کو تو ایک مقدس قدر سمجھتے ہیں لیکن پاکستان کا کوئی شخص بھی اپنی بہن یا بیٹی کے لیے کسی آشنا یا عاشق کا نام سننے پر آمادہ نہیں۔ ہمیں واضح طور پر دومتخالف راستوں میں ایک کا انتخاب اور اس کے لوازم اور نتائج وعواقب کے لیے خود کو تیار کرنا ہوگا۔ اس دو رخی سے معاشرے میں ہر طرف المیے جنم لے رہے ہیں۔ ذرائع ابلاغ محبت وعشق کو مقدس قرار دیتے اور عدالتیں انسانی حق بتاتی ہیں، اس کا نتیجہ ہے کہ کلبوں، پارکوں میں محبت کے نام پر عصمت دری کا جرم ہورہا ہے اور گلیوں محلوں میں قتل وغارت۔ عدالتیں ایسے مسائل سے بھری پڑی ہیں اور حکومتیں ان کی روک تھام کی بجائے آخری بندھن بھی توڑدینا چاہتی ہیں۔
آخری سالوں میں ہونے والی قانون سازی کا منظر نامہ تو یہ ہے کہ عشق وفجور اور بےراہ روی اختیار کرنے والے تو معصوم تصور ہوں اور ان کو روکنے والے کسی تفصیل میں جائے بغیر سیدھا قانون کی کڑی گرفت میں۔ اس قانون کا طرفہ تماشا دیکھیے کہ زنا کا کیس تو ایس پی اور عدالت کی پیشگی اجازت کے بغیر درج نہ ہو،گویا زنا کو اس طرح قانونی تحفظ دے دیاگیا کہ جرم کی ایف آئی آر؟؟؟ ناممکن بنا دی گئی، دوسری طرف عوام الناس اور خاندان کے مردوں کو قانون کی دھمکی کے ذریعے اس سے منع کرنے کی قانون سازی کی جارہی ہے۔ اس سے پاکستانی معاشرہ کس تضاد اور ہلاکت کا شکار ہوگا، اور حالات ہمیں کدھر لے جائیں گے، اس کا اندازہ ہر ذی شعور کرسکتا ہے۔
لوگ قانون کو ہاتھ میں لینے پر اس لیے مجبور ہوتے ہیں کہ ایک طرف مذہب اور ان کی درست سماجی روایات اُن کو غیرت مند بننے کی تلقین کرتے ہیں، ہم میں کوئی مردوعورت بھی اپنے شریکِ حیات کے بارے میں کسی اورکی معمولی دلچسپی قبول کرنے پرآمادہ نہیں۔ کوئی شریف مسلمان اپنی بہن بیٹی اور اپنے بھائی بیٹے کی غلط کاریوں کو سندِ جوازدینے کو تیار نہیں اور جرم کے خلاف نفرت کا یہی تقاضا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ صورتِ حال کو ٹھنڈے دل سے سوچا سمجھا جائے، اور اپنے دین اور درست کلچر کی روشنی میں اس کا حل نکالا جائے۔ جب قانون درپیش مسائل کا ہمارے سماج اور شریعت سے ہم آہنگ حل نہیں نکالتا تو لوگ قانون کو ہاتھ میں لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں کیونکہ