کتاب: محدث شمارہ 368 - صفحہ 18
عند الشافعي وأحمد في الروایة الأخرٰی[1]
''جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ مقتول نے عملی طور پر بدکاری کا ارتکاب نہ کیا ہو لیکن وہ داخل اس نیت سے ہوا ہو تو ایسی صورت میں علما کے مختلف موقف ہیں جن میں سے محتاط ترین یہ ہے کہ ایسے قتل کی صورت میں قاتل اللہ سے ہی توبہ کرلے۔
جہاں تک ایسے قتل کا کفارہ ادا کرنے کا تعلق ہے تو اس کا کفارہ ادا کرنا زیادہ محتاط رویہ ہے۔ یاد رہے کہ کفارہ قتل خطا میں عائد ہوتا ہے۔ جہاں تک قتل عمد کا تعلق ہے تو جمہور علما (مثلاً امام مالک، ابوحنیفہ اور امام احمد کے مشہور موقف) کے مطابق اس میں کفارہ نہیں ہوتا، البتہ امام شافعی اور امام احمد کے دوسرے موقف کے مطابق وہاں بھی کفارہ ادا کرنے کی گنجائش موجود ہے۔''
گویا امکانِ بدکاری کی صورت میں بھی قاتل کو قاتل تو قرار دیا جائے گا، لیکن وہ قتل عمد کی بجائے قتل خطا قرار پائے گا، جس میں دیت مع کفارہ دیا جاتا ہے۔ اس مسئلے کی مزید تفصیل اور کامل دلائل آئندہ شمارے میں مستقل مضمون میں ملاحظہ کریں۔
موجودہ صورتِ حال کا حل
پاکستانی معاشرہ اس وقت جس المیہ سے دوچار ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری حکومت عوام کے سماجی اور دینی رجحانات کو مدنظر رکھ کر قانونی اقدامات نہیں کررہی، اس سے معاشرے میں شدید بے چینی اور بے راہ روی پروان چڑھ رہی ہے۔ افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ ہمارے ذرائع ابلاغ (ڈرامے اور فلمیں)عشق ومحبت کو ایک مقدس قدر اور مقصدِ حیات کے طور پر پیش کررہے ہیں۔ تعلیمی ادارے اس بدتصور کی تجربہ گاہ اور عدالتیں انسانی حقوق کے نام پر اس کی ضامن ومحافظ بنی ہوئی ہیں۔ سارا زور آخر کار غیرت کے نام پر جرائم میں نکلتا ہے، جس سے تھوڑا بہت خوف باقی ہے۔ مقننہ این جی اوز کے ساتھ مل کر، اس آخری دیوار کو بھی گرانا چاہتی ہے، جس کے بعد قانونی سطح پر یا افرادِ خانہ کی طرف سے معمولی رکاوٹ ومزاحمت کا امکان ہی باقی نہ رہے اور جو ایسا کرے وہ الم ناک سزا کا مستحق قرار پائے۔
[1] مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ:ج۳۴؍ص١٦٨،١٦٩