کتاب: محدث شمارہ 368 - صفحہ 17
وأن صاحبَه يستحقّ القتل في الدنيا حدًّا، ما لم يكن مستحلًّا لذلك فيكون كفرًا، ويستحق العقاب بالنار في الآخرة[1]
''مسلمانوں میں ایسے قتل عمد کی حرمت پر کوئی اختلاف نہیں جس میں بغیر حق کے زیادتی کی جاتی ہو۔ اور ایسا قاتل دنیا میں بطورِ حد قتل کیا جائے گا جب تک وہ اسے (اعتقادًا)جائز نہ سمجھے جو موجبِ کفر اور آخرت میں آگ کی سزا کا مستحق ہے۔''
اس سے معلوم ہوا کہ قتل عمد، وہی ہے جس میں مقتول معصوم الدم نہ ہو اور اس کی سزا بطورِ قصاص قتل ہو۔ اس بنا پر غیرت کے نام پر قتل کرنے والا اگر مقتول کا جرم زنا ثابت کردیتا ہے، تو اس کو قتل عمد کا مجرم اور جواباً ؍قصاصًا قتل نہیں کیا جائے گا۔
مذکورہ بالا بحث ایسی صورت کے بارے میں ہے جب کہ مقتول شادی شدہ ہو اور بدکاری کو قانوناً ثابت کردیا جائے، تاہم اگر مقتول اس سے کمتر جرم کا مرتکب ہو مثلاً کنوارے کی بدکاری یا مبادیات زنا کا ارتکاب، تب بھی قاتل کو شبہ کا فائدہ حاصل ہوگا، اور ایسی صورت میں یہ قتل عمد سے نکل کر قتل خطا کی ذیل میں آجائے گا، کیونکہ شبہات سے حدود زائل ہوجاتی ہیں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
((ادْرَءُوا الْحُدُودَ عَنِ الْمُسْلِمِينَ مَا اسْتَطَعْتُمْ)) [2]
''جہاں تک ممکن ہو، مسلمانوں سے حدود کو مؤخر کرو۔''
ایسا ہی ایک فتویٰ شیخ الاسلام ابن تیمیہ سے پوچھا گیا کہ کسی وقوعہ میں عملاً بدکاری واقع نہ ہوئی ہو، یا مقتول مبادیاتِ زنا اور بوس وکنار میں مشغول تھا، جس کے بارے میں قاتل کو مغالطہ لگا اور اس نے قتل کردیا، تواُنہوں نے ایسے قاتل کو قتل خطا کا مجرم قرار دیتے ہوئے جواب دیا:
وأما إن کان الرجل لم یفعل بعد فاحشة ولکن وصل لأجل ذلك فهٰذا فیه نزاع، والأحوط لهٰذا أن یتوب من القتل من مثل هذه الصورة وفي وجوب الکفارة علیه نزاع، فإذا کفّر فقد فعل الأحوط فإن الکفارة تجب في قتل الخطإ وأما قتل العمد فلا کفارة فیه عند الجمهور: کمالك وأبي حنیفة وأحمد في المشهور عنه، وعلیه الکفارة
[1] مراتب الإجماع از ابن حزم اندلسی: ص ۱۳۷، ۱۳۸
[2] سنن ترمذی: ۱۴۸۹