کتاب: محدث شمارہ 368 - صفحہ 16
والظاهرية بأنه يجب أن يكون المقتول معصوم الدم، أما إن كان الشرع قد أباح دمه لكونه حربيا أو مرتدا، أو زانيا محصنا، أو قاطع طريق تحتم قتله، فإن قاتله لا يقتل به وإن كان بغير إذن من الحاكم، ولا يجب عليه دية ولا كفارة؛ لأنه مباح الدم في الجملة، وإن توقفت المباشرة على إذن الحاكم فيأثم بدونه خاصة، ويعزر قاتل هؤلاء لافتياته على الإمام. [1]
''قصاص کی دوسری شرط یہ ہے کہ جس پر زیادتی کی جائے، وہ معصوم الدم ہو۔ معصوم الدم کا مطلب یہ ہے کہ اس کا خون جائز نہ ہو۔اگر اس کا خون بہانا جائز ہے تو ایسے قاتل عمد پر قصاص واجب نہیں ہوگا۔ اس سے پہلے ہم بتا چکے ہیں کہ شریعتِ اسلامیہ نے سزاے قتل، ایسے قتل پر سنائی ہے جو ناحق ہو۔ جو قتل حق کے ساتھ ہو مثلاً مرتد، جنگی دشمن، باغیان، شادی شدہ زانی، قاتل کاقتل، تو ایسے قتلوں کے ارتکاب پر گناہ واقع نہیں ہوتا کیونکہ یہ سب قتل حق کے ساتھ ہیں۔تاہم ایسے قتل کا مرتکب تعزیر کا مستحق ہے کیونکہ حکمران کےحق میں دخل اندازی کرتے ہوئے اس نے قانون ہاتھ میں لینے کا جرم کیا ہے۔
حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی، زیدی، امامیہ اور ظاہریہ سب کا اتفاق ہے کہ قصاص لینے کے لیے مقتول کا معصوم الدم ہونا ضروری ہے۔اگر شریعت نے ان کے خون کو جنگی دشمن یا ارتداد کی بنا پر جائز قرار دیا ہو، یا شادی شدہ زانی، ڈاکہ زنی کی بنا پر تو ان کاقاتل، جوابا ً قتل نہیں کیا جائےگاچاہے وہ حاکم کی اجازت کے بغیر ایسا کرے۔ اسپر دیت وکفارہ لاگونہیں ہوگا کیونکہ یہ سب لوگ اُصولی طور پر مباح الدم ہیں۔اگر حاکم کی اجازت کے بغیر ایسا کیا گیا تو قانون کو ہاتھ میں لینے کے وہ مجرم ہوں گے اور اس جرم کی سزا میں قاتل کو تعزیر دی جائے گی۔''
اس سلسلے میں فقہاے کرام کے جملہ مسالک (حنفیہ، شافعیہ، مالکیہ، حنابلہ، ظاہریہ، زیدیہ، امامیہ) کے ہاں کلی اتفاق پایا جاتا ہے، جس کی تفصیل آئندہ شمارے میں مستقل مضمون میں ملاحظہ کریں۔
۴۔ قتل عمد کے بارے میں فقہاے کرام کااجماع ہے :
فلا خلافَ بين المسلمين في تحريم القتل العمد العُدوان بغير حق،
[1] الجنایات في الفقه الإسلامي از شيخ حسن علی شاذلی :۱؍۸۵، مزید ۱۷۰ تا ۱۸۵