کتاب: محدث شمارہ 368 - صفحہ 15
کے لیے موت کی سزا عائد کردیتا ہے، تب بعد میں اس کو قتل کرنے والا قاتل عمد نہیں کہلائے گا۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ پہلے جرم کو شرعی تقاضوں کے مطابق ثابت کرے۔ ۱۔ فقہ حنبلی کے مشہور عالم ابو النجا موسیٰ بن سالم مقدسی (م ۹۶۰ھ) نے اپنی معروفِ زمانہ کتاب زاد المستقنع میں قتل عمد کی تعریف یوں کی ہے : فَالْعَمْدُ أَنْ يَقْصِدَ مَنْ يَعْلَمُهُ آدَمِيّاً مَعْصُوماً فَيَقْتُلَهُ بِمَا يَغْلِبُ عَلَى الظَّنِّ مَوْتُهُ بِهِ ''قتل عمد وہ ہوتا ہے، جس میں کسی معصوم الدم شخص کو قتل کرنے کا ارادہ کیا جائے تو اس کو اس طرح قتل کیا جائے، جس طرح مرجانے کا غالب امکان ہوتا ہے۔'' ۲۔ زاد المستقنعکی الشرح الممتع میں نامور مفتی شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں: مثال رابع: لو رمى شخصًا يظنه الزاني المحصن، والزاني المحصن غير معصوم؛ لأنه يرجم حتى يموت، فتبين أنه ليس هو الزاني المحصن، فهٰذا ليس بعمد. [1] ''اس کی چوتھی صورت یہ ہوئی کہ کسی نے دوسرے شخص کو شادی شدہ زانی سمجھ کر قتل کردیا۔ اورشادی شدہ زانی معصوم الدم نہیں ہوتا کیونکہ اس کی سزا سنگساری ہے، یہاں تک وہ مر جائے۔ پھر اس کو پتہ چلا کہ وہ شادی شدہ زانی نہ تھا، چنانچہ یہ بھی قتل عمد نہ ہوا۔'' ۳۔ قتل عمد کے جرم کی چھ شرائط ہیں، جن میں سے دوسری یہ ہے کہ ثانيًا: أن يكون المجني عليه معصوم الدم: ومعنى كونه معصوم الدم ألا يكون دمه مباحًا، فإن كان دمه مباحًا لم يجب القصاص على قاتله عمدًا؛... ولقد سبق أن أوضحنا أن الشريعة الإسلامية جعلت القتل الموجب للعقوبة القتل بغير حق، أما القتل بحق؛ كقتل الحربي والمرتد عن دينه، والبغاة، والزاني المحصن، وقاتل النفس عمدًا، فإنه قتل لا يترتب عليه الإثم؛ لأنه قتل بحق؛ ولكن يعزر مقترف هذه الجريمة لافتياته على الإمام. فقد صرح الحنفية والمالكية والشافعية والحنابلة والزيدية والإمامية
[1] الشرح الممتع على زاد المستقنع از ابن عثیمین :ج۱۴۔.. كتاب الجنايات