کتاب: محدث شمارہ 368 - صفحہ 14
نہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کو ٹوکا، نہ ہی قتل سے منع کیا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ایک لازمی حکم بن جاتا اور آپ کا فتویٰ اُمّت کے لیے عام اُصول ٹھہرتا۔اب آپ اگر زانی کے قتل کا حکم دے دیتے تو یہ آپ کا آرڈر ہوجاتا کہ اس طرح اس کا خون ظاہر وباطن شرع میں رائیگاں ٹھہرا۔ لوگ اس طرح اپنے مذموم مقاصد کے لیے قتل وغارت کیا کرتے اور یہ دعویٰ کردیتے کہ اُنہوں نے اس مقتول کو اپنی بیوی کے ساتھ دیکھا تھا، سو آپ نے سدِذریعہ، فساد کے خاتمہ اور جانوں کی حرمت برقرار رکھنے کے لیے محض قاتل کے دعوے کو غیرمعتبر قرار دیا۔ ''
ان واضح احادیثِ مبارکہ سے علم ہوگیا کہ غیرت کے نام پر قانون کو خود ہاتھ میں لیتے ہوئے کسی کو قتل کردینا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منع کردینے کی بنا پرایک گناہ ہے۔اور دوسری حدیث سے علم ہوا کہ ثبوت مہیا نہ کرسکنے کی بنا پر اس سے روکا گیا ہے، جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نَعَم یعنی ہاں ارشاد فرمایا ہے۔ جس کا مفہومِ مخالف یہ ہوا کہ اگر ثبوت یعنی گواہ پورے ہوں تو ایسا کیا جاسکتا ہے، مزید یہ کہ آخر حدیث میں سعد کی غیرت کی تعریف کرتے ہوئے، اللہ اور اس کے رسو ل کو اس سے زیادہ غیرت مند بتایا گیا ہے۔
قتل عمد کی سزا کے لیے مقتول کا معصوم الدم ہوناضروری ہے
اس فرمانِ نبوی میں سعد بن عبادہ کو منع تو کیا گیا ہے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ تو اس کو قتل عمد قرار دیا ہے اور نہ ہی اس کی سزا قتل بالارادہ والی ہے، کیونکہ'قتل عمد'جرم وسزا کی ایک مخصوص اصطلاح ہے، جس میں قصاصاً جوابی قتل کیا جاتا ہے۔ اس جرم کو قتل عمد قرار دینا درست نہیں ہے۔ یہاں 'قتل عمد' لغوی معنی کے لحاظ سے تو عمداً ہی ہے لیکن شرعی معنیٰ کے لحاظ سے نہیں۔ جس طرح ہر گواہ، گواہ ہی ہوتا ہے، چاہے وہ جھوٹا ہو یا سچا... اسی طرح قاضی کے حکم پر جلاد کا مجرم کو قتل کرنا بھی لغوی معنی ٰ کے لحاظ سے قتل عمدہی ہوتا ہے، جب کہ جرم وسزا کی اصطلاح میں اُنہیں قتل عمد نہیں کہا جاتا۔ایسے ہی جنگ میں مقابل کو موت کے گھاٹ اُتارنے والا مسلمان بھی قاتل ہی ہوتا ہے، لیکن اسے قاتل نہیں کہتے۔
دراصل غیرت کے نام پر قتل، ایک پہلے جرم کا ردّ عمل ہے، اور اس قتل کو پہلے جرم کے تناظر میں دیکھنا ہوگا۔ اگر تو پہلاجرم واقع ہوا ہو اور اس کی سزا بھی موت ہو جیسے شادی شدہ فرد کا زنا جو اس