کتاب: محدث شمارہ 368 - صفحہ 13
أَغْيَرُ مِنِّي)) [1]
''سعد بن عبادہ کہنے لگے : یا رسول اللہ! اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ کسی شخص کو پالوں تو میں اس کو کچھ نہیں کہہ سکتا حتی کہ چار گواہ لے آؤں، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بولے: ہاں... سعد کہنے لگے: ہرگز نہیں، قسم اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! میں تو جلد ہی اس سے قبل، تلوار سے اس کا کام تمام کردوں گا۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: سنو اپنے سردار کی سنو، یہ بڑا غیّور ہے اور میں اس سے زیادہ غیور ہوں اور اللہ مجھ سے بھی زیادہ غیرت مند ہے۔''
اس حدیث کی تشریح میں شرعی حکمتوں کے نامور ماہر علامہ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وَآخِرُ الْحَدِيثِ دَلِيلٌ عَلَى أَنَّهُ لَوْ قَتَلَهُ لَمْ يُقَدْ بِهِ؛ لِأَنَّهُ قَالَ: بَلَى وَالَّذِي أَكْرَمَكَ بِالْحَقِّ، وَلَوْ وَجَبَ عَلَيْهِ الْقِصَاصُ بِقَتْلِهِ لَمَا أَقَرَّهُ عَلَى هَذَا الْحَلِفِ، وَلَمَا أَثْنَى عَلَى غَيْرَتِهِ، وَلَقَالَ: لَوْ قَتَلْتَهُ قُتِلْتَ بِهِ.
وَلَمْ يُنْكِرْ عَلَيْهِ وَلَا نَهَاهُ عَنْ قَتْلِهِ؛ لِأَنَّ قَوْلَهُ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حُكْمٌ مُلْزِمٌ، وَكَذَلِكَ فَتْوَاهُ حُكْمٌ عَامٌّ لِلْأُمَّةِ، فَلَوْ أَذِنَ لَهُ فِي قَتْلِهِ لَكَانَ ذَلِكَ حُكْمًا مِنْهُ بِأَنَّ دَمَهُ هَدَرٌ فِي ظَاهِرِ الشَّرْعِ وَبَاطِنِهِ، وَوَقَعَتِ الْمَفْسَدَةُ الَّتِي دَرَأَهَا اللّٰہُ بِالْقِصَاصِ، وَتَهَالَكَ النَّاسُ فِي قَتْلِ مَنْ يُرِيدُونَ قَتْلَهُ فِي دُورِهِمْ وَيَدَّعُونَ أَنَّهُمْ كَانُوا يَرَوْنَهُمْ عَلَى حَرِيمِهِمْ، فَسَدَّ الذَّرِيعَةَ وَحَمَى الْمَفْسَدَةَ وَصَانَ الدِّمَاءَ... [2]
''اس حدیث کا آخری حصّہ اس امر کی دلیل ہے کہ اگر وہ قتل کردے تو اس سے قصاص نہ لیا جائے گا، کیونکہ سعد نے کہا: ہرگز نہیں، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق سے مبعوث کیا ہے۔ اگر قاتل پر قصاص واجب ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس حلف کو برقرار [3]نہ رہنے دیتے اور سعد کی غیرت کی تعریف نہ فرماتے اور یوں کہتے: اگر تو نے قتل کیا تو تجھے بھی جواباًقتل کیا جائے گا۔ ....
[1] صحیح مسلم: ۱۷
[2] زاد المعاد فی ہدی خیر العباد: ۵؍۳۶۶
[3] کسی واقعہ پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاموش ہوجانا اور اس کو برقرار رکھنا بھی شرعی دلیل ہے، جسے تقریری حدیث کہتے ہیں۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ اسی سے استدلال کررہے ہیں۔