کتاب: محدث شمارہ 368 - صفحہ 11
غیرت کے نام پر قتل کو قتل عمدقرار دینا ...؟ اسلام میں ہر جرم کی سزا اُس کی نوعیت و شدت کے مطابق دی جاتی ہےکہ یہی عدل وانصاف کا تقاضا ہے۔عشق وفسق کے رویے اختیار کرنا، گو کہ اسلام کی نظر میں انتہائی ناپسندیدہ ہیں لیکن اس کی سزا یہ نہیں کہ ایسا کرنے والے کو موت کے گھاٹ اُتار دیا جائے۔ بلکہ ایسا کرنے والے کو تادیبی اور انسدادی سزا دی جانی چاہیے۔مرد وزَن کے بے محابا تعلقات اور اُن میں خفیہ آشنائی بھی ناجائز اور حرام ہیں، لیکن جب تک کوئی مرد وعورت بدکاری کے حقیقی جرم کا ارتکاب نہیں کرتا، اس وقت تک اس کو بدکاری کی سزا نہیں دی جاسکتی۔ حتیٰ کہ کنوارے مرد وعورت اگر زناکاری بھی کرلیں تو شریعتِ اسلامیہ میں اُن کی سزا، قتل کی بجائے سو کوڑے اور جلاوطنی سے زیادہ نہیں۔ غیرت کے حوالے سے جرائم کی بعض سنگین صورتیں مجرموں کے لیے سزاے موت کو شرعاً لازم تو کرتی ہیں، تاہم ورثا کے لیے پھربھی قانون کو ہاتھ میں لینے کی گنجائش نہیں ہے، ایسا کرنا صرف مسلمان حاکم کا استحقاق ہے۔ اسی طرح یہ بھی یاد رہے کہ جس جرم کی سزا قرآن وسنّت نے مقرر کر دی ہو، اس کی جگہ از خود دوسری سزا مقرر کردینا چاہے وہ کم ہو یا زیادہ،ایک مسلمان کے لیے ایسا رویہ اختیار کرنا ناجائز ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((لاَ يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ، يَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنِّي رَسُولُ اللّٰہِ ، إِلَّا بِإِحْدَى ثَلاَثٍ: النَّفْسُ بِالنَّفْسِ، وَالثَّيِّبُ الزَّانِي، وَالمَارِقُ مِنَ الدِّينِ التَّارِكُ لِلْجَمَاعَةِ)) [1] ''کلمہ طیبہ کا اقرار کرنے والے کسی مسلمان کا خون بہانا تین صورتوں کے سوا جائز نہیں: قصاص، شادی شدہ زانی، دین سے نکل کر ارتداد کی راہ اختیار کرنے والا۔'' اس سے معلوم ہوا کہ شادی شدہ مردوعورت کی بدکاری کے علاوہ کسی کو خفیہ یارانے اور بدکاری پرقتل کی سزا نہیں دی جاسکتی اور یہ سزا دینا بھی مسلم حاکم کا فریضہ ہے۔ اسلام میں بدکاری اور اس کے مبادیات کو بھی گناہ قرار دیتے ہوئے، ان پر 'زنا'کے لفظ کا اطلاق کیا گیا ہے، لیکن اس لفظ کا استعمال اس گناہ کی شدت کے اظہار کے لیے ہی ہے، حقیقی زنا وہی ہے جو بدکاری کا فعل ہے اور اس
[1] صحيح بخاری: ۶۸۷۸