کتاب: محدث شمارہ 368 - صفحہ 10
قتل، زِنا، فحاشی، اختلاطِ مردوزَن ہر ایک میں غیرت کی نوعیت مختلف ہے، اور ہر ایک کے لیے عدل وانصاف کے تقاضے پورے کئے جانے چاہئیں۔
پاکستان میں قانونی طور پر جرائم غیرت کی تعریف اور مصداق مختلف ہیں، جن میں کارو کاری، سیاہ کاری اور کالا کالی وغیرہ کو ہی سامنے رکھ کر قانون سازی کی گئی ہے، چنانچہ 'عورت فاؤنڈیشن' کے زیر اہتمام 'کرائمز آف آنر' نامی کتاب کی مصنفہ ملیحہ ضیا لکھتی ہیں :
"Offence committed in the name or on the pretext of honour means an offence committed in the name or on the pretext of karo kari, siyah kari or similar other customs or practices," which allow family members to kill women, and also men, on the pretext of having brought dishonour to the family... [1]
''غیرت کے نام پر ارتکاب کیے جانے والے جرائم مثلاً کارو کاری، سیاہ کاری یا اس سے ملتی جلتی رسوم وروایات۔'' جو خاندان کے ارکان کو اس احتمال کی بنا پر عورت اور مرد کو قتل کرنے کی اجازت دیتی ہیں کہ اس سے خاندان کو بے عزتی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔''
پاکستانی معاشرے میں'جرائم غیرت'کے تحت کاروکاری، کالا کالی، سیاہ کاری کی قبائلی رسومات سے لے کر خفیہ آشنائی، ناجائز راہ ورسم اورتعلقات، بدکاری اور عشقیہ شادی وغیرہ شامل ہیں جن میں سے ہر ایک کے بارے میں شرعی حکم وموقف جداگانہ ہے۔پاکستانی معاشرے میں قبائلی رسوم ورواج کے زیر اثر، خواتین پر ہونے والے مظالم کی شریعتِ اسلامیہ میں کوئی گنجائش نہیں، اور بعض دیگر جرائم کے سلسلے میں قانون کو خود ہاتھ میں لے کر دی جانے والی سزا کی بھی اسلام مخالفت کرتا ہے۔ ہمارے مسائل کی وجہ شریعتِ اسلامیہ کی تعلیمات سے ناواقفیت اور اس کا احترام نہ کرنا ہے، وگرنہ شریعتِ محمدیہ میں ہر ہر جرم کے ساتھ عین پورا پورا انصاف موجود ہے۔مردو زَن دونوں ہی اللہ ارحم الرّاحمین کی اشرف مخلوق ہیں، اور اللہ تعالیٰ دونوں کے حقوق کے پورے محافظ ہیں۔
[1] Honour Killings in Pakistan and Compliance of Law از ملیحہ ضیا لاری، ص ۳۱، عورت فاؤنڈیشن، لاہور اور Criminal Law (Amendment) Act 2004, Article 2 (ii)