کتاب: محدچ شمارہ 367 - صفحہ 82
جماعتیں شریک ہیں، حوثیوں کی اس مسلح بغاوت میں ایران کی کھلی اور بھر پورسرپرستی حاصل ہے، حتیٰ کہ یمن کے دار الحکومت صنعا کے محاصرے میں حوثیوں کی مذکورہ کامیابی کے بعد تہران سے ایرانی پارلیمنٹ کے رکن علی رضا زاکانی نے یہ کہا ہے کہ ایران کو تین عرب دارالحکومتوں بغداد، دمشق اور بیروت کے بعد چوتھے دار الحکومت صنعا پر بھی اختیار حاصل ہو گیا ہے اور اس طرح عرب دنیا میں ایرانی اثر ورسوخ نے ایک نیا رخ اور نئی طاقت حاصل کر لی ہے، جس پر کویت کے معروف سنّی دانشور ڈاکٹر عبد اللہ نفیسی نے حوثیوں کی یلغار کو 'صفوی یلغار' قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا راستہ روکنا صرف یمن کا نہیں، بلکہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کا دفاع بھی ہو گا۔ ہم ایک عرصے سے گزارش کر رہے ہیں کہ مشرقِ وسطیٰ میں 'دولتِ فاطمیہ' کی واپسی کی راہ ہموار کی جا رہی ہے اور اس سلسلے میں ہر آنے والا دن گزشتہ دن سے زیادہ تشویش ناک ثابت ہو رہا ہے۔ اس میں سب سے زیادہ توجہ کے قابل بات یہ ہے کہ شام کے علوی، یمن کے زیدی اور ایران کے اثنا عشری باہمی اختلافات کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک صف میں محاذ آرا ہیں، حالانکہ ان کے درمیان بنیادی عقائد کے اختلافات اس حدتک موجود ہیں کہ عام حالات میں وہ ایک دوسرے کو اپنے ساتھ شمار کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے لیکن مشرقِ وسطیٰ میں اور خاص طور پر حرمین شریفین کے گرد تسلط قائم کرنے کے لیے وہ پوری طرح متحد اور ایک دوسرے کے معاون ہیں، جبکہ دوسری طرف سعودی عرب کے سلفی اور مصر کے شافعی باہم مل بیٹھنے کو تیار نہیں ہیں اور پاکستان کے اہل سنّت کو تو ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کے محبوب مشغلہ سے ہی فرصت نہیں ہے۔ یمن میں اقوامِ متحدہ کی زیرنگرانی حوثیوں اور یمنی حکومت کے درمیان طے پانے والے مذکورہ معاہدے کو عرب دنیا کے دانشوروں میں 'سقوطِ یمن'سےتعبیر کیا جا رہا ہے اور اس معاہدے کے اگلے روز حوثیوں نے جو جشن منایا ہے، وہ اس سلسلے میں انکے مستقبل کے عزائم کا اندازہ کرنے کے لیے کافی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کی یہ سنّی شیعہ خانہ جنگی جو اب وسیع تر خانہ جنگی کا روپ دھار چکی ہے،اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اردگرد بلکہ اندر بھی اپنے اثر ورسوخ کے دائرے بڑھاتی جا رہی ہے، جسے دیکھنے کے لیے محدود ذہنی خولوں سے باہر نکل کر کھلی نظر سے ماحول کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے اور اسے ہم نے اپنے لیے 'شجر ممنوعہ ' کا درجہ دے رکھا ہے۔ مگر کیا شتر مرغ کی طرح ریت میں سردے کو ہم خود کو آنیوالے طوفان سے محفوظ رکھ سکیں گے؟