کتاب: محدچ شمارہ 367 - صفحہ 8
اپنے تعلق کا جائزہ لیتے ہیں کہ کہیں کسی لغزش کے نتیجے میں تو یہ مصیبت نازل نہیں ہوئی؟
ابن سعد، سلیمان بن یسار سے روایت کرتے ہیں:
خطب عمر بن الخطّاب الناس عام الرمادة فقال: أيّها النّاس اتّقوا اللّٰه في أنفسكم وفيما غاب عن الناس من أمركم، فقد ابتُليت بكم وابتُليتُم بي. فما أدري ألسُّخْطةُ عليّ دونكم أو عليكم دوني؟ أو قد عمّتْني وعمّتكم، فهلمّوا فلندْعُ اللّٰه يُصْلِحْ قلوبنا وأن يرحمنا وأن يرفع عنّا المحل، قال فرُئي عمر يومئذٍ رافعًا يديه يدعو اللّٰه ، ودعا الناس وبكىٰ وبكى الناس مَليًّا، ثمّ نزل[1]
''رماد ۃ کے زمانے میں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے سامنے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: لوگوں اپنے ربّ سے ڈرو، اپنے نفس کے بارے میں اور اپنے ان اعمال کے بارے میں جو لوگوں سے پوشیدہ ہیں۔ یقیناً تمہاری وجہ سے میری اور میری وجہ سے تمہاری آزمائش ہو رہی ہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ اللہ کی ناراضگی صرف میرے اوپر ہے یا صرف تمہارے اوپر اور یا عمومی طور پر میرے اوپر ہے اور تمہارے اوپر بھی۔ آئیے بارگاہِ الٰہی میں دعا کریں کہ وہ ہمارے دلوں کی اصلاح فرمائے، ہم پر رحم فرمائے اور ہم سے قحط وخشک سالی کو اُٹھا لے۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس روز بارگاہِ الٰہی میں دونوں ہاتھ اُٹھائے ہوئے دعا مانگتے دیکھا گیا اور لوگوں نے بھی دعا مانگی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کافی دیر تک خود بھی روئے اور لوگ بھی رو دیے۔ پھر منبر سے اُترے۔''
زید بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ اُنہوں نے کہا:
سمعت عمر يقول: أيها الناس إني أخشى أن تكون سخطة، عمّتنا جميعا فأعتبوا ربكم وانزعوا وتوبوا إليه واحدا ثوا خيرًا[2]
''میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ لوگو مجھے ڈر ہے کہ (یہ قحط) ہم سب پر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا اظہار ہے۔ اس لیے اپنے رب کو راضی کر لو، اس کی ناراضگی سے ہاتھ کھینچ لو۔ اس کی بارگاہ میں توبہ کر لو اور اچھے اعمال کر کے دکھاؤ۔''
[1] طبقات ابن سعد: ۳؍ ۳۲۲
[2] ایضاً