کتاب: محدچ شمارہ 367 - صفحہ 7
قحط کی شدت کا اندازہ آپ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ بقول طبری
جعلت الوحش تأوي إلى الإنس
یعنی ''یہاں تک کہ وحشی جانور انسانوں کے پاس آنے لگے [1] (کہ شاید کچھ مل جائے)۔''
انتظامات اور فاروقی کردار
اس بحران سے نمٹنے کے لیے امیر المؤمنین نے کیا طریقہ اختیار کیا، کیسے انتظام کیا اور کونسے اقدامات اُٹھائے۔ بعض اقدامات تو خالصۃً انتظامی نوعیت کے تھے اور بعض امیر المؤمنین کے ذاتی کردار سے متعلق تھے لیکن جو چیز ان میں مشترک ہے، وہ ہے امیر المؤمنین کی حیرت انگیز اور عدیم المثال انتظامی صلاحیت، اپنی رعیت کے ساتھ پر خلوص محبت، خیر خواہی اور للہیت۔ تو آئیے ان کے اقدامات پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں...
۱۔ بیت المال سے امداد
جیسے جیسے قحط میں شدت پیدا ہوتی گئی، لوگوں کی قوت جواب دیتی گئی۔ جو کچھ ان کے پاس محفوظ تھا، اسے کھا گئے حتیٰ کہ کچھ بھی باقی نہ رہا۔ چنانچہ آس پاس کے لوگ امیر المؤمنین کے پاس دار الخلافہ مدینہ منورہ آنے لگے۔ مدینہ منورہ میں بیت المال میں جو کچھ موجود تھا، امیر المؤمنین نے وہ سب کچھ تقسیم کر دیا۔حافظ ابن کثیررحمہ اللہ فرماتے ہیں: "فأنفق فيهم من حواصل بيت المال مما فيه من الأطعمة والأموال حتى أنفده"[2]
''امیر المؤمنین کے پاس بیت المال میں جو کچھ غذائی مواد یا مال موجود تھا، وہ ان میں خرچ کر ڈالا حتیٰ کہ اسے ختم کر ڈالا۔''
۲۔ خود احتسابی
بلاشبہ'رمادۃ'ایک بڑی آزمائش تھی۔ اس کے ظاہری اسباب کو موضوعِ سخن بنانے کی بجائے امیر المؤمنین نے مناسب سمجھا کہ اپنے اعمال کا جائزہ لیا جائے اور قوم کو بھی اس طرف متوجہ کیا جائے۔ اولیاء اللہ کا طریقہ ہمیشہ یہی رہا ہے کہ آزمائش کے وقت اللہ تعالیٰ کے ساتھ
[1] تاریخ طبری: ۴؍۹۸
[2] البدایۃ والنہایۃ: ۷؍۱۳