کتاب: محدچ شمارہ 367 - صفحہ 6
كان في عام الرمادة جدب عمّ أرض الحجاز[1]
بقول محمد حسین ہیکل: یہ وہ قحط تھا جس نے ملک عرب کو جنوب کے آخری کناروں سے لے کر شمال کی آخری سرحدوں تک گھیر لیا تھا۔[2] ابن سعد کی روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سلسلہ شام وعراق کی سرحدوں اور تہامہ تک پھیلا ہوا تھا[3]۔ یمن بھی اس کی لپیٹ میں آ چکا تھا۔[4]
مؤرخین نےلکھا ہے کہ اس قحط کے باعث بھیڑ بکریوں کے ریوڑ فنا ہو گئے اور جو بچ رہے اُنہیں سوکھا لگ گیا،یہاں تک کہ ایک شخص بھیڑ کو ذبح کرتا اور اس کی بدہیئتی دیکھ کر بھوک اور مصیبت کے باوجود اسے چھوڑ کے کھڑا ہو جاتا۔ بازار سونے پڑے تھے اور ان میں خریدوفروخت کے لیے کچھ نہ تھا۔ لوگوں کے ہاتھ میں روپے تھے مگر ان کی کوئی قیمت نہ تھی اس لیے کہ بدلے میں کوئی چیز ایسی نہ ملتی تھی جس سے وہ پیٹ کی آگ بجھا سکتے۔ مصیبت طویل اور ابتلا شدید ہو گئی۔ لوگ جنگلی چوہوں کے بل کھودنے لگے کہ جو اس میں ملے، نکال کے کھا لیں۔ قحط کی ابتدا میں مدینہ والوں کی حالت دوسروں سے بہتر تھی جس کا سبب یہ تھا کہ مدینہ منورہ میں مدنیت کا شعور پیدا ہو چکا تھا اور مدینہ والوں نے آسودگی کے زمانے میں ضروریاتِ زندگی کا ذخیرہ فراہم کر لیا تھا جو متمدن لوگوں کی عادت ہے۔ چنانچہ قحط کا آغاز ہوا تو وہ اس ذخیرے کے سہارے زندگی بسر کرنے لگے لیکن بدویوں کے پاس کوئی اندوختہ نہ تھا۔ اس لیے وہ شروع ہی میں بھوکے مرنے لگے اور وہ دوڑ دوڑ کر مدینہ پہنچے کہ امیر المؤمنین سے فریاد کر کے اپنے اہل وعیال کی زندگی کےلیے روٹی کا ٹکڑا مانگیں۔ ہوتے ہوتےان پناہ گیروں کی اتنی کثر ت ہو گئی کہ مدینہ میں تل دھرنے کو جگہ نہ رہی۔ اب مدینہ والے بھی آزمائش میں پڑ گئے اور بدویوں کی طرح بھوک اور قحط نے ان پر بھی وار کر دیا۔اس پر مستزاد یہ کہ بیماری پھوٹ نکلی اور بہت سے لوگ اس کی نذر ہو گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ مریضوں کی عیادت کو جاتے اور جب کوئی مر جاتا تو اس کے لیے کفن بھیجتے [5]۔ ایک مرتبہ تو بیک وقت دس آدمیوں کی نماز جنازہ پڑھائی۔
[1] البدایۃ والنہایۃ از حافظ ابن کثیر : ۱؍ ۱۰۳
[2] عمر فاروق اعظم: ص ۳۳۷
[3] طبقات ابن سعد: ۳؍۳۱۱
[4] اخبار عمر: ص ۱۱۷
[5] عمر فاروق اعظم: ص ۳۴۲