کتاب: محدچ شمارہ 367 - صفحہ 5
بائیس لاکھ مربع میل ریاست کے بلاشرکتِ غیرے حکمران تھے لیکن غرور وتکبر کا نام ونشان نہ تھا۔ سر کے نیچے پتھر رکھ زمین پر سونا شاید ان کے بعد کسی حکمران کو نصیب نہیں ہو سکا۔ غلام کی موجودگی میں بوریاں اپنی پیٹھ پر لادنا انہی کا خاصّہ ہے۔ فاتح کی حیثیت سے بیت المقدس میں داخل ہوئے تو خود پیدل اور غلام اونٹ پر سوار،یہ منظر شاید دنیا پھر نہ دیکھ سکے۔ عدل وانصاف اتنا لا جواب کہ نہ اپنے بیٹے کو معاف کیا، نہ گورنر؍ فاتح مصر کے بیٹے کو۔ احتساب کا یہ عالم کہ برسرمنبر عام لوگ احتساب کر سکتے ہیں۔تواضع کی یہ کیفیت کہ راہ چلتے ہوئے ایک بوڑھی خاتون نے روکا تو گھنٹوں کھڑے رہے۔ ایک خاتون نے دلیل کی قوت سے بات کی تو ریاست کی قوت بے بس ہو گئی۔ ان کی اصلاحات اور اولیات پر کوئی لکھنے بیٹھے تو مواد کی کمی نہیں۔ دنیا کو انتظام وانصرام کے معانی ومعارف سے عملاً روشناس کرانے کے لیے پوری انسانیت ان کے احسان کی مرہون رہے گی۔ دورِ عمر رضی اللہ عنہ میں آنے والی خشک سالی امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت کے دوران آنے والی خشک سالی کو 'رمادۃ' کہتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہوا کہ جزیرہ نمائے عرب میں پورے ۹؍ مہینے تک مینہ کے نام سے ایک بوند نہ پڑی۔ ادھر آتش فشاں پہاڑ پھٹنے لگے جس سے زمین کی سطح اور اس کی ساری روئیدگی جل گئی اور وہ سیاہ مٹی کا ڈھیر ہو کے رہ گئی۔ جب ہوا چلتی ساری فضا گرد آلود ہوجاتی۔ اس لیے لوگوں میں اس برس کا نام ہی 'عام الرمادۃ' یعنی راکھ والا برس[1] پڑ گیا۔ بارش کے نہ ہونے آندھیوں کے چلنے اور کھیتوں کے جل جانے سے قحط کی صورت پیدا ہو گئی جس نے انسان اور جانوروں کو ہلاک کرنا شروع کر دیا۔ چنانچہ بھیڑ بکریوں کے ریوڑ فنا ہو گئے اور جو بچ رہے اُنہیں سوکھا لگ گیا۔یہ قحط پورے حجاز پر پھیلا ہوا تھا،جیسے حافظ ابن کثیررحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ
[1] علامہ شبلی نعمانی نے الفاروق (ص ۲۳۳)، زین الدین عمر بن الوردی نے تتمة المختصر في أخبار البشر(ج۱؍ص ۲۲۵)، علی طنطاوی نے اخبار عمر (ص ۱۰۸) اور ہمارے شیخ حضرت الاستاذ محمد السید الوکیل نے جولة تاریخية في عصر الخلفاء الراشدین (ص ۳۶۵) اور رزق اللّٰہ منقر یوس الصرفی نے تاریخ دول الاسلام (ج۱؍ ص ۳۲) میں الرمادۃ کو ۱۸ھ کے واقعات میں شمار کیا ہے۔