کتاب: محدچ شمارہ 367 - صفحہ 43
تھا اور سیدنا جابر رضی اللہ عنہ اور سیدنااسید رضی اللہ عنہ نے بیماری کی حالت میں بیٹھ کر نماز پڑھائی اور مقتدیوں کو بیٹھنے کا حکم دیا۔[1] امام ابن منذر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ صحابی اپنی مروی عنہ کو زیادہ جانتا ہوتا ہے اور چار صحابہ رضی اللہ عنہم کاان احادیث (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت میں مقتدیوں کا بیٹھ کر نماز پڑھنے والی)کو بیان کرنا،پھر اس کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد عمل کرنا اور اس کے مطابق فتویٰ دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ قاعد امام کی اتباع میں مقتدیوں کو بھی بیٹھ کر نماز ادا کرنا ہوگی۔[2] امام ابن حبان نے تو اس پر صحابہ رضی اللہ عنہم کے اجماعِ سکوتی کا دعویٰ کیا ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ چار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اس پر عمل اور کسی ایک صحابی رضی اللہ عنہ سے بھی اس کے خلاف عمل یا فتویٰ کا ثابت نہ ہونا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اجماع کی دلالت کرتا ہے۔[3] امام ابن حبان رحمہ اللہ کی طرح امام ابن حزم رحمہ اللہ نے بھی اجماع کا دعویٰ کیا ہے۔[4] ۲۔ اس مسئلہ میں دوسرا موقف امام مالک اور امام حسن بصری کا ہے جو قاعد امام کی امامت کے جواز کے ہی قائل نہیں ہے، چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ امام وقت جب بیمار ہو یا کسی عذر کی بنا پر جماعت کھڑے ہو کر نہ کرواسکے تو امام کو اپنا نائب بنانا چاہیے اور وہ خود جماعت نہ کروائے۔ [5]آپ اپنے اس موقف کے حق میں یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بیمار ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود نماز پڑھانے کے بجائے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اپنا خلیفہ بنایا اور حکم دیا کہ وہ ان کی جگہ امامت کا فریضہ سرانجام دیں اور وہ آخری مرض الموت والی حدیث پیش کرتے ہیں۔[6] جبکہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں سترہ نمازوں کی امامت کروائی ہے۔
[1] ایضاً [2] ایضاً [3] فتح الباری : ۲؍۲۲۹ [4] فتح الباری: ۲؍۲۲۹ [5] صحیفہ ہمام بن منبہ ص : ۱۴۹ [6] صحیح بخاری:۷۱۳؛ صحیح مسلم: ۹۳۶