کتاب: محدچ شمارہ 367 - صفحہ 41
اوردرج ذیل چار آراءسامنے آتی ہیں: ۱۔ قاعد امام کے اقتدا میں مقتدی بھی بیٹھ کر نماز پڑھیں گے۔ اس قول کے قائلین میں سیدنا جابر بن عبد اللہ ،سیدنا اسید بن حضیر، سیدنا ابو ہریرہ، سیدنا قیس بن فہد وغیرہ اور امام احمد بن حنبل، اسحٰق اور امام اوزاعی وغیرہ شامل ہیں۔[1] ۲۔ امام بیٹھ کر جماعت کر وا ہی نہیں سکتا، اگر امام کوکوئی عذر یا بیماری وغیرہ لا حق ہو تو وہ امامت کے لیے اپنا نائب بنائے۔ یہ امام مالک رحمہ اللہ کا موقف ہے۔[2] ۳۔ جمہوراہل علم کا موقف ہے کہ امام کسی عذر وغیرہ کی بنا پر بیٹھ کرجماعت کرواسکتا ہے لیکن مقتدی قاعد امام کے پیچھے کھڑے ہوکر نماز پڑھیں گے۔ اس نظریہ کے حاملین میں سے امام سفیان ثوری، امام عبد اللہ بن مبارک،امام ابوحنیفہ، امام شافعی رحمہم اللہ،اہل الحدیث اور اصحاب الرائے وغیرہ شامل ہیں۔[3] ۴۔ بعض اہل علم ان دونوں قسم کی روایات میں تطبیق دیتے ہوئے یہ رائے رکھتے ہیں کہ اگرامام کھڑے ہوکر نماز کی ابتدا کرے اور اثناے نماز میں کسی عذر یا ضرورت کی بنا پر امام کو بیٹھنا پڑ جائے تو بیٹھ سکتا ہے لیکن مقتدی کھڑے رہیں گے اور اگر امام بیٹھ کر نماز کی ابتدا کرے تو مقتدی بھی امام کی اقتدا میں بیٹھ کر نماز پڑھیں گے، دوسری تطبیق کی یہ صورت بھی بتائی گئی ہے کہ قاعد امام کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھنا مستحب ہے اور کھڑے ہو کر نماز ادا کرنا بیانِ جواز کے لیے ہے یعنی کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث ((إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَلَا تَخْتَلِفُوا عَلَيْهِ فَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا وَإِذَا قَالَ سَمِعَ اللّٰهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا وَإِذَا صَلَّى جَالِسًا فَصَلُّوا جُلُوسًا أَجْمَعُونَ)) [4]وجوب پر دلالت کر تی ہے جبکہ دوسری حدیث (مرض الوفات والی نماز) استجاب پر دلالت کر تی ہے اور وجوب كو منسوخ کر تی ہے۔
[1] شرح مسلم از امام نووی۲؍۱۵۸۹ [2] صحیفہ ہمام بن منبہ: ص۱۴۹ [3] شرح مسلم از امام نووی: ۲؍۱۵۸۹ [4] صحیح بخاری:۷۲۲