کتاب: محدچ شمارہ 367 - صفحہ 35
لیے اپنے اوپر یہ بوجھ نہیں لادا تھا کہ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ وہ اس لیے کرتے تھے کہ ان کا شعور غریبوں، کمزوروں اور محتاجوں کے شعور سے ہم آہنگ ہو جائے۔ فرماتے: ''جب تک میں خود لوگوں کی مصیبت میں شریک نہ ہوں گا مجھے ان کی تکلیف کا کیسے اندازہ ہو گا؟ '' اس لیے وہ اپنے آپ کو ان محتاجوں کی سطح پر لے آئے تھے جنہیں زندگی برقرار رکھنے کے لیے صرف انہی کا دستر خواں میسر آتا تھا جس پر وہ دوسرے ہزاروں بھوکوں کے ساتھ بیٹھتے تھے چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کے ہمراہ کھانا کھاتے تھے اور اپنے گھر میں کھانا کھانے پر رضا مند نہ ہوتے تھے تاکہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ وہ اپنے لیے ایسی چیز پسند کرتے ہیں جو ان کی قوم کے فاقہ زدوں کو میسر نہیں۔ اپنے اس عمل سے ان کے دو اہم مقصد تھے: ایک تو یہ کہ انہیں لوگوں کے دکھ درد کا احساس ہو جائے تاکہ وہ ان سے ہمدردی اور ان کی تکلیفیں دور کرنے کے سلسلے میں سعی وعمل کی رفتار تیز کر دیں اور دوسرا یہ کہ عوام کو اطمینان حاصل ہو جائے کہ امیر المؤمنین مصائب وشدائد میں ہمارے برابر کے شریک ہیں اور ان کے جذبات مشتعل نہ ہوں بلکہ وہ ہر تکلیف واذیت پر راضی بہ رضا رہیں کہ خلافت کا سب سے بڑا آدمی اس ابتلا میں ان کا ساتھ دے رہا ہے اور ان دونوں مقاصد میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ اتنے کامیاب رہے کہ کسی قوم کا کوئی فرمانروا اس کی مثال پیش نہیں کر سکتا۔[1] یہ ہے اسلام کی عظمت کہ چودہ سو برس قبل بھی خلافت راشدہ نے ایسی شاندار روایات قائم کیں کہ آج تک دنیااس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ خداخوفی اور احساسِ ذمہ داری کے ساتھ مسلم حکمران اپنی رعایا کی فلاح کا بھرپور خیال رکھا کرتے۔ آج بھی ملتِ اسلامیہ کا اصل مسئلہ مال ودولت، قدرتی وسائل اور سائنس وٹیکنالوجی سے بڑھ کر، اپنی رعایا کی فلاح کی فکر، احساسِ ذمہ داری، خدا خوفی، للہیت اور دیانت وامانت ہے، اور اس کے لیے مغرب کی طرف دیکھنے کی بجائے، اپنی تاریخ سے سنہری مثالیں نکال کر اُنہیں اپنانا ہوگا۔ اور جب بھی مسلمانوں کا کوئی طبقہ، ان اوصاف کا خوگر ہوجائے گا، چاہے وہ سیاسی قیادت ہو یا دینی قیادت، ملتِ اسلامیہ کا زوال پلٹ جائے گا۔آج کا دور ایسے ہی ذمّہ دار اور خداترس مسلم قیادت کی راہ تک رہا ہے۔
[1] عمر فاروق اعظم:ص ۳۴۳۔۳۴۴