کتاب: محدچ شمارہ 367 - صفحہ 34
حکم دیا کہ وہ وصولی کے لیے نکلیں۔ چنانچہ اُنہوں نے دو دو حصّے وصول کیے۔ آپ نے اُنہیں حکم دیا کہ ایک حصہ مقامی طور پر تقسیم کیا جائے اور دوسرا حصہ اپنے ساتھ (بیت المال کے لیے) لے کر آئیں۔ اس کے ساتھ ہی اُنہوں نے وصولی اور تقسیم کے لیے مفصّل ہدایات جاری کیں۔'' ان اقدامات کے تین فوائد حاصل ہوئے: ۱۔ رمادہ کے ایام میں لوگوں کی سہولت، مہلت اور رعایت حاصل ہوئی اور حکومتیں کارندوں یعنی محصلین کی توجہ امدادی کاموں پر مرکوز رہی۔ ۲۔ مقامی تقسیم میں ان لوگوں کو ترجیح دی گئی جو سب سے زیادہ متأثر ہوئے تھے ان کو مقامی طور پر امداد مہیا کر دی گئی اس طرح حکومت اور عوام دونوں کا وقت اور ان کے وسائل ضائع ہونے سے بچ گئے کیونکہ اموال صدقہ کی مدینہ منورہ منتقلی اور پھر مقررہ حصہ کی واپسی ان علاقوں میں منتقلی پر وقت اور سرمایہ دونوں خرچ ہوتے۔ ۳۔ چونکہ بیت المال بالکل خالی ہو چکا تھا اور ایک بڑے اقتصادی بحران کا خطرہ موجود تھا، اس لیے اُنہوں نے زکاۃ کی وصولی ساقط نہیں کی بلکہ مؤخر کر دی اور اگلے سال مکمل وصولی کی وجہ سے عوام کی داد رسی بھی ہوئی اور بیت المال بھی آئندہ کسی اور بحران سے نمٹنے کے قابل ہوا۔ قارئین کرام !حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سیاست کو دیکھیں جو اس قحط کے زمانے میں جس سے اُنہیں اور ان کی قوم کو سابقہ پڑا،ان کی خدمات سے ظاہر ہوئی ہے۔ اس سے ہماری مراد استعجاب واحترام کے ان جذبات کا احترام نہیں ہے جو ان خدمات کے پیش نظر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لیے دل میں پیدا ہوئے ہیں بلکہ ہم ان خدمات کے آئینے میں حکومت کی اس تصویر کو اجمالی خطوط دیکھنا چاہتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ اس مسلم حکمران کے ذہن میں مرتسم تھی۔ جسے اللہ جل جلالہ کی حکمتِ بالغہ نے اس مقصد کےلیے مخصوص فرمایا تھا کہ وہ اسلامی معاشرے میں نظام حکومت کو تفصیلی رنگ دینے کا آغاز کرے۔ ان خدمات واعمال میں جو چیز سب سے زیادہ نظر کو اپنی طرف کھینچتی ہے وہ حضرت عمر کا ذمہ داریاں قبول کرنا اور اپنی جان کو موردِستم بنانا ہے۔ اُنہوں نے اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی نعمتوں سے روگرداں ہونے کے