کتاب: محدچ شمارہ 367 - صفحہ 33
بقول ابن سعد: فلما أحيوا قال أخرجوا من القرية إلى كنتم اعتدتم من البرية فجعل عمر يحمل الضعيف منهم حتى لحقوا ببلادهم[1] ''یعنی جب بارش ہوئی تو حضرت عمر نے لوگوں سے کہا، اس گاؤں سے نکلو اور صحرا جہاں رہنے کے تم عادی تھے، چلے جاؤ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان میں سے ضعیفوں کو خود اُٹھاتے یہاں تک کہ وہ لوگ اپنے علاقوں میں چلے گئے۔'' بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مقصد کے لیے امیر المؤمنین نے چند لوگوں کو ذمہ داری سونپی تھی۔ واپس جانے والوں کو امداد اور سواری بھی مہیا کی جاتی تھی۔قحط کے بعد یہ ایک انتہائی اہم قدم تھا جو انہوں نے اٹھایا، اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایسا نہ کرتے تو ایک جانب مدینہ منورہ میں ان مہاجرین کی آبادکاری حکومت کے لیے گھمبیر صورت اختیار کر جاتی اور دوسری طرف عرب کا صحرائی نظامِ زندگی متاثر ہوئے بغیر نہ رہتا اور ساتھ ہی بارش کے بعد زمینوں کی دوبارہ بحالی کا کام بھی پایہ تکمیل کو نہ پہنچتا۔ زکاۃ کی وصولی میں تاخیر رمادہ کے زمانے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے زکاۃ وعشر کی وصولی کے بارے میں انتہائی بروقت اور جرأت مندانہ فیصلے کیے۔ایک اہم فیصلہ یہ کیا کہ قحط کے زمانے میں انہوں نے کسی آدمی کو زکاۃ کی وصول کے لیے متاثرہ علاقے میں نہیں بھیجا بلکہ جب تک قحط دور نہ ہو گیا، ان کو روکے رکھا۔ جب بارش ہوئی اور لوگوں نے سکھ کا سانس لیا اور معیشت بحال ہونے لگی تو کارندوں کو وصولی کے لیے بھیجا۔ ابن سعد کی روایت کے مطابق أن عمر أخر الصدقة عام الرمادة فلم يبعث السعاة. فلما كان قابل ورفع اللّٰه ذلك الجدب أمرهم أن يخرجوا فأخذوا عقالين فأمرهم أن يقسموا عقالا ويقدموا عليه بعقال[2] '' رمادہ کے سال حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے زکاۃ کی وصولی مؤخر فرما دی، چنانچہ کسی کو وصولی کے لیے نہیں بھیجا۔ اگلے سال جب اللہ تعالیٰ نے خشک سالی رفع فرمائی تو محصلین کو
[1] طبقات ابن سعد:۳؍۳۱۷۔۳۲۳ [2] طبقات ابن سعد:۳؍۳۲۳