کتاب: محدچ شمارہ 367 - صفحہ 32
نمازِ استسقاء اور بارانِ رحمت کا نزول رزم ہو یا بزم، بھوک ہو یا بیماری، ہر حالت میں باب رحمت کی کشادگی کے لیے مسلمانوں کی نظریں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہی اٹھتی تھیں: استشفاء اور استسقاء کے لیے مسلمانوں نے ہمیشہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں التجا کی۔ بلکہ عہدِ نبوی میں جب ایک مرتبہ خشک سالی ہوئی تو کفار نے بھی بارگاہِ نبوت میں دعا کے لیے درخواست کی۔ رمادہ کا دورِ ابتلا نو مہینے جاری رہا۔ مسلمانوں نے صابر ہونے کاثبوت دیا، اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آئی۔ بقول حافظ ابن کثیررحمہ اللہ گھروں تک پہنچنے سے بھی پہلے ایسی بارش ہوئی کہ وادیاں بہہ نکلیں۔[1]سورۃ الشوریٰ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَهُوَ الَّذى يُنَزِّلُ الغَيثَ مِن بَعدِ ما قَنَطوا وَيَنشُرُ‌ رَ‌حمَتَهُ وَهُوَ الوَلِىُّ الحَميدُ ﴾ ''وہی تو ہے جولوگوں کے مایوس ہو جانے کے بعد بارانِ رحمت برساتا ہے اور اپنی رحمت پھیلا دیتا ہے۔ وہی کارساز اور قابل ستائش ہے۔'' نو ماہ کے ابتلا و آزمائش کے بعد اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آئی اور صلوٰۃ استسقا کی طرف مسلمانوں کی توجہ دلائی گئی، یہ سب کچھ خواب کے ذریعے ہوا۔ البتہ واقعات مختلف ہیں، مؤرخین نے اس سلسلے میں خواب کے دو واقعات کا تذکرہ کیا ہے۔ اگرچہ مذکورہ خواب دیکھنے والے اشخاص الگ الگ ہیں تاہم ان خوابوں کا مفاد ومراد ایک ہے۔ مہاجرین کی واپسی بقول محمد حسین ہیکل: اللہ تعالیٰ نے اپنےبندوں کی دعا قبول فرمائی اور دھواں دار بارش کے ذریعےآسمان کے دروازے کھول دیے، پیاسی زمین دیکھتے دیکھتے سیراب ہو گئی اور اس نے اپنا خاکستری لباس اتار کر دھانی پوشاک پہن لی۔ اب ان تمام عربوں کے لیے جو چاروں طرف سے آ کر مدینہ میں جمع ہو گئے تھے، وہاں ٹھہرنے کی کوئی وجہ نہ رہی۔چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ خود ان میں جاتے اور فرماتے: جاؤ، اپنے وطن کو واپس جاؤ۔ انہیں اندیشہ تھا کہ کہیں لوگ مدینہ کی زندگی کو عیش و آرام کی زندگی سمجھ کر وہیں نہ رہ پڑیں۔
[1] البدایہ والنہایہ:۷؍۱۰۴