کتاب: محدچ شمارہ 367 - صفحہ 31
باری لے رہے ہیں۔مجھے دیکھ کر اُنہوں نے فرمایا: ابو ہریرہ کہاں سے آ رہے ہو؟ میں نے عرض کیا: یہاں قریب ہی سے، پھر میں نے بھی ان کی مدد کی حتیٰ کہ ہم صرار(جگہ کا نام)پہنچے،وہاں تقریباً بیس گھرانوں پر مشتمل ایک گروہ تھا۔ جن کا تعلق محارب (قبیلہ) سے تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: تم لوگ کیسے یہاں آئے۔ انہوں نے کہا: مصیبت کی وجہ سے، اس کےبعد اُنہوں نے جانور کا بھنا ہوا چمڑا ہمارے سامنے نکال کر رکھا جسے وہ کھایا کرتے اور اس کے ساتھ پسی ہوئی ہڈیوں کا سفوف پھانک لیا کرتے تھے۔ میں نے دیکھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی چادر پھینک دی اور تہبند کس لیا اور ان کے لیے کھانا پکاتے رہے یہاں تک کہ وہ سب سیر ہو گئے۔ پھر اسلم کو مدینہ منورہ کی طرف بھیجا،وہ وہاں سے اونٹ لے کر گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سب کو اونٹوں پر سوار کرا کر 'جبانہ' نامی مقام میں بسایا، ان کو کپڑے مہیا کیے۔ اس کے بعد وہ کبھی کبھی ان کی اور دوسرے لوگوں کی خبر گیری تشریف لے جایا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے وہ مصیبت دور فرما دی۔[1] پکانے کی تربیت دینا رمادہ کے زمانے میں ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک عورت کے پاس سے گزرے جو کہ عصیده[2]پکا رہی تھی آپ نے فرمایا: عصیدہ ایسے نہیں بنایا جاتا۔ پھر مسوط[3]اپنے ہاتھ میں لیا اور اس کو سمجھا کر فرمایا: ایسے۔ ہشام بن خالد کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جب تک پانی خوب گرم نہ ہو جائے تم خواتین میں سے کوئی اس میں آٹا نہ ڈالے، پھر پانی گرم ہو جانے کے بعد تھوڑا تھوڑا کر کے آٹا اس میں ڈالا جائے اور مسوط کے ذریعے اس کو ہلاتی جائے اس طرح کھانا زیادہ گاڑا ہو گا اور آٹے کے ٹکڑے بھی نہیں جمیں گے۔[4]
[1] طبقات ابن سعد:۳؍۳۱۴ [2] ایک قسم کا کھانا جو کہ گھی اور آٹا ملا کر پکایا جاتا ہے۔(مصباح اللغات:ص ۵۵۵) [3] لکڑی وغیرہ جس کے ذریعےکسی چیز کو دوسری میں مكس کیا جائے۔(مصباح اللغات:ص ۴۰۶) [4] طبقات ابن سعد:۳؍ ۳۱۴