کتاب: محدچ شمارہ 367 - صفحہ 30
گوشت کی خواہش ہوی تو میں نے ذبح کر دیا۔[1] عیسیٰ بن معمر کہتے ہیں کہ رمادہ کے سال حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بچوں میں سے کسی کے ہاتھ میں خربوزہ دیکھا تو فرمایا: واہ واہ امیر المؤمنین( ) کے صاحبزادے! محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت تو بھوک سے نڈھال ہو رہی ہے اور تم پھل کھا رہے ہو؟ یہ سن کر بچہ بھاگ نکلا اور رونے لگا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس وقت مطمئن ہوئے جب اُنہیں بتایا گیا: یہ خربوزہ اس بچے نے مٹھی بھر گٹھلیوں کے عوض خریدا تھا۔[2] بیویوں سے کنارہ کشی ویسے تو رمادہ کے دوران امیر المؤمنین کا مکمل کردار عدیم المثال ہے لیکن جو واقعہ بیان کیا جا رہا ہے اس کی مثال شاید انسانی تاریخ آئندہ زمانے میں بھی پیش نہ کر سکے۔صفیہ بنت ابی عبید نقل کرتی ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے گھر کی بعض خواتین نے مجھے بتایا کہ رمادہ کے زمانے میں غم اور پریشانی کی وجہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی کسی بیوی کے قریب نہیں گئے۔[3] خود سامان اُٹھانا اور کھانا پکانا اس عظیم آزمائش کے دوران حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ریاستی مشینری کو تو متحرک کر ہی دیا تھا لیکن خود بھی اس دوران ایک عام مزدور کی طرح بلکہ مزدور سےبڑھ کر کام کیا۔ بجائے اس کے کہ متاثرین قحط کو اپنے پاس بلاتے، خود ان کے پاس چل کر تشریف لے جاتے۔ ان کے کندھوں پر بوریاں لادنے کی بجائے خود اُٹھا کر لے جاتے رہے اور باورچی بن کر فاقہ زدوں کے لیے کھانا پکاتے رہے۔ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو ہریرہ ایسا ہی ایک واقعہ نقل فرماتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں: اللہ تعالیٰ ابن حَنتمہ(عمر کی والدہ کا نام) پر رحم فرمائے۔ رمادہ کے سال میں نے دیکھا کہ ہاتھ میں گھی کا برتن اور پشت پر دو بوریاں لادے جا رہے ہیں۔ وہ اور اسلم اپنی اپنی
[1] طبقات ابن سعد:۳؍۳۱۳ [2] طبقات ابن سعد:۳؍ ۳۱۵ [3] طبقات ابن سعد:۳؍ ۳۱۵