کتاب: محدچ شمارہ 367 - صفحہ 28
رمادہ کے ایام میں اس غذا سے وہ سیر نہیں ہوتے تھے۔[1] زندگی خطرے میں پڑ گئی یہاں یہ تصور کر لینا بالکل غلط ہو گا کہ تبدیلی صرف ان کے رنگ تک محدود تھی۔ بلکہ اکثر مؤرخین نے بیان کیا ہے کہ ان کی صحت مسلسل گررہی تھی اور اگر قحط کا یہ سلسلہ جاری رہتا تو شاید امیر المؤمنین اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔ اسامہ بن زید بن اسلم اپنے دادا اسلم کے حوالے سے روایت کرتے ہیں کہ "كنا نقول لو لم يرفع اللّٰه المحل عام الرمادة لظننا أن عمر يموت همًّا بأمر المسلمين"[2] ''یعنی رمادہ کے سال ہم آپس میں کہا کرتے تھے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے یہ قحط ختم نہ کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ یقیناً مسلمانوں کے غم میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔'' سواری چھوڑ دی بات صرف کھانے پینے کے معاملے میں عزیمت تک محدود نہ تھی بلکہ اب تو زندگی کے ہر معاملے میں وہ عزیمت کی انتہائی حدوں کے قریب پہنچ گئے تھے۔ یہ کہنا ہرگز مبالغہ نہ ہو گا کہ قحط نے سب سے زیادہ امیر المؤمنین کو متاثر کیا۔ تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ رمادہ کے ایام میں وہ ہر چھوٹے بڑے واقعے بلکہ معمول کی چیزوں کا بھی غیر معمولی انداز میں جائزہ لیا کرتے تھے اور جو بھی قدم اُٹھانا ہوتا تھا،اس کا آغاز اپنی ذات سے کرتے تھے۔ سائب بن یزید نقل کرتے ہیں کہ رمادہ کے سال حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک سواری پر سوار تھے جانور نےلید کی جس میں جَو کے دانے تھے۔ اسے دیکھ کر حضرت عمر نے فرمانے لگے: "المسلمون يموتون هزلا وهذه الدابة تأكل الشعير لا واللّٰه لا أركبها حتى يحيا الناس"[3] ''مسلمان بھوکوں سے مر رہے ہیں اور یہ جانور جَو کھا رہا ہے۔ نہیں اللہ کی قسم جب تک
[1] البدایہ والنہایہ:۷؍۱۰۳ [2] طبقات ابن سعد:۳؍۳۱۵ [3] طبقات ابن سعد:۳؍ ۳۱۲