کتاب: محدچ شمارہ 367 - صفحہ 26
ہی اپنی بیویوں میں سے کسی کے گھر کوئی پسندیدہ کھانا تناول فرمایا، سوائے اس کھانے کے جو وہ رات کے وقت عام لوگوں کے ساتھ مل کر کھاتے تھے۔'' عوام کے ساتھ بیٹھ کر کھانا قحط کے دوران لوگوں کو تسلی دینے اور ان میں صبر کا مادہ پیدا کرنے اور ان کا حوصلہ بڑھانے کی خاطر اُنہوں نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ عام لوگوں کے ساتھ ایک ہی دستر خوان پر بیٹھتے اور وہی کھانا تناول فرماتے جو عام لوگ کھاتے:"و كان عمر يأكل مع القوم كما يأكلون"[1] ''حضرت عمر رضی اللہ عنہ لوگوں کے ساتھ مل کر انہی کی طرح کھاتے۔'' پیٹ گڑگڑانا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رمادہ کے زمانے میں جس قسم کی غذا کا استعمال شروع کیا، وہ ان کے مزاج کے موافق نہ تھا۔اس لیے اس کے اندرونی وخارجی اثرات ان کی صحت پر مرتب ہونا شروع ہوئے اور یہ اثرات اتنے واضح تھے کہ دیکھنے اور پاس بیٹھنے والوں نے بھی محسوس کیا۔ رمادہ کے زمانے میں انہوں نے اپنے لیے گھی کو ممنوع قرار دیا تھا اور روغن زیتون پر گزارہ کرتے تھے جس کی وجہ سے پیٹ سے گڑگڑاہٹ سنائی دیتی تھی۔ آپ نے انگلی سے پیٹ کو دبایا اور پیٹ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمانے لگے۔ خوب گڑ گڑاؤ! ہمارے پاس تمہارے لیے اس کے علاوہ کوئی اور چیز ہے ہی نہیں جب تک کہ لوگوں سے یہ مصیبت ٹل نہیں جاتی۔[2] ایک اور موقع پر اپنے پیٹ کو مخاطب کر کے فرمایا: اے پیٹ! جب تک گھی چاندی کے مول بکتا رہے گا تجھے اسی تیل کی عادت ڈالنی پڑے گی۔ آپ کے غلام اسلم کہتے ہیں کہ لوگ جب قحط کا شکار ہوئے تو گھی مہنگا ہو گیا۔ حضرت عمر گھی کھایا کرتے تھے جب اس کی قلت پیدا ہوئی تو فرمایا: "لا أكله حتى يأكله الناس" جب تک لوگوں کو کھانے کےلیے گھی نہیں ملے گا میں بھی نہیں کھاؤں گا۔ چنانچہ زیتون کا تیل استعمال کرنے لگے اور فرمایا: اے اسلم! اس کو آگ پر گرم کر کے اس کی حدت ختم کر دو۔ چنانچہ میں ان کے لیے تیل پکایا کرتا تھا اور وہ استعمال
[1] طبقات ابن سعد:۳؍۳۱۲ [2] الزہد:ص ۱۴۶