کتاب: محدچ شمارہ 367 - صفحہ 25
قناعت اور تواضع کا نظارہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ کھجوروں کے وطن میں بیٹھ کر کوئی ردی کھجوریں کھائے اور وہ بھی امیر المؤمنین۔ بائیس لاکھ مربع میل کا حکمران!! [1] ٹڈی کی خواہش قحط اور خشک سالی جیسے حالات کا سامنا بہت سے ملکوں کو کرنا پڑتا ہے لیکن عموماً نچلے یا متوسط طبقے کے لوگ اس سے متاثر ہوتے ہیں، اَشرافیہ اور حکمران طبقہ شاذ ونادر ہی متاثر ہوتا ہے۔ یا تو اپنے مال ودولت کی وجہ سے اور یا اثر ورسوخ اور حکومت کی وجہ سے۔جب ہم رمادہ پر نظر ڈالتے ہیں تو حاکم ومحکوم دونوں متاثر ہوئے اور دونوں میں کوئی فرق نظر نہیں آیا۔حضرت عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ ان کے منہ سے پانی ٹپک رہا ہے، میں نے عرض کی کہ آپ کا کیا حال ہے؟ تو فرمایا: بھنے ہوئے ٹڈی کی خواہش ہے۔ ایک اور روایت کے مطابق آپ کی مجلس میں کسی نے ذکر کیا کہ 'ربذہ '(نامی مقام) میں ٹڈی موجود ہے یہ سن کر آپ نے فرمایا: میرا دل چاہتا ہے کہ ٹڈی کی ایک دو ٹوکریاں ہمارے پاس ہوں تو ہم بھی کھا سکیں۔اس خواہش کی شدت کا اندازہ یوں بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بر سرمنبر اس کاذ کر کیا اور فرمایا: کاش ہمارے پاس ٹڈی بھرے ایک یا دو ٹوکرے ہوتے اور ہم بھی اس میں سے کچھ کھا لیتے۔[2] قصر خلافت کا دستر خوان مؤرخین نے لکھا ہے کہ رمادہ کے دوران حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کبھی گھر کے اندر بھی کوئی پسندیدہ کھانا تناول نہیں کیا، اس دوران آپ ہمیشہ وہی کھانا تناول فرماتے جو عام لوگوں کے میسر تھا۔ چنانچہ بعض روایات میں نقل کیا گیا کہ "وما أكل عمر في بيت أحد من ولده ولا بيت أحد من نسائه ذواقا زمان الرمادة إلا ما يتعشى مع الناس"[3] ''حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رمادہ کے زمانے میں نہ تو اپنے بیٹوں میں سے کسی کے گھر اور نہ
[1] طبقات ابن سعد:۳؍ ۳۱۸ [2] طبقات ابن سعد:۳؍ ۳۱۷۔۳۱۸ [3] طبقات ابن سعد:۳؍۳۱۷