کتاب: محدچ شمارہ 367 - صفحہ 23
گوشت کو ہاتھ نہیں لگائیں گے۔''[1] یحییٰ بن سعد روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اہلیہ نے ان کے لیے گھی کا ایک کنستر ساٹھ درہم میں خریدا۔ حضرت عمر نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا: یہ میرے ذاتی مال میں سے خریدا گیا ہے،آپ کے دیے گئے نفقہ سے نہیں۔ یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ما أنا بذائقه حتى يحيا الناس[2] '' جب تک لوگ بارانِ رحمت سے فیض یاب نہیں ہوتے، میں اسے چکھنے والا نہیں۔'' گوشت سے پرہیز زید بن اسلم اپنے والد کے حوالے سے کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رمادہ کے سال گوشت کو اپنے اوپرحرام کر دیا تھا،جب تک کہ لوگوں کو نہ ملے۔ ایک اور روایت سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے اس عزم پر قائم رہے... "لم يأكل عمربن الخطاب سمنا ولا سمينا حتى أحيا الناس"[3] ''یعنی عمر بن خطاب نے نہ تو گھی کھایا، نہ گوشت یہاں تک کہ بارش ہوئی۔'' دو سالن ایک ساتھ دستر خوان پر نہیں کھاتے قحط کے زمانے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کبھی ایک دستر خوان پر دو سالن نہیں کھائے، وہ اسےفضول خرچی سمجھتے رہے کیونکہ یہ چیزیں اس طرح دوسرے لوگوں کو میسر نہ تھیں۔ ایک دفعہ ان کے سامنے گوشت پیش کیا گیا جس میں گھی بھی تھا۔ اُنہوں نے دونوں کے کھانے سے انکار کر دیا اور فرمایا: "كل واحد منهما أدم" ''ان دونوں میں سے ہر ایک (بجائے خود) ایک (مستقل) سالن ہے۔'' ابو حازم نقل کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی صاحبزادی اُمّ المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے گئے تو اُنہوں نے ٹھنڈا شوربا اور روٹی پیش کی اور شوربے میں تیل
[1] طبقات ابن سعد: ۳؍ ۳۱۳ [2] مناقب عمر :ص ۷۲ [3] طبقات ابن سعد:۳؍۳۱۳