کتاب: محدچ شمارہ 367 - صفحہ 21
ہونے لگے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ خود جا کر ان کی نماز جنازہ پڑھاتے اور میں نے تو یہ بھی دیکھا کہ ایک مرتبہ دس آدمیوں کی اجتماعی نماز جنازہ پڑھائی۔''
راشن بندی
پہلے یہ بات عرض کی جا چکی ہے کہ جو لوگ خود حاضر ہونے کے قابل ہوتے، وہ بذاتِ خود آ کر دسترخوانِ خلافت پر کھانا کھا لیتے اور جو حاضری سے معذور تھے جیسے خواتین، بچے بوڑھے وغیرہ ان کے لیے کھانا گھروں پر بھجوا دیا جاتا تھا اور بعض صورتوں میں تو ہر مہینہ یکمشت ان کا راشن بھجوا دیا جاتا تھا۔[1]
یہ سامان لوگوں میں اس طرح تقسیم کیا جاتا تھا کہ بقول محمد حسین ہیکل اسے زمانۂ جنگ کی تقسیم غذا کے جدید نظام سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔زیادہ ہوا تو زیادہ تقسیم کر دیا گیا اور کم ہوا تو کم[2]۔ راشن کی تقسیم اور لوگوں کی ضرورت پوری کرنے کے لیے حضرت فاروق رضی اللہ عنہ کے ذہن میں ایک اور تجویز بھی تھی جس کا اظہار اُنہوں نے رمادہ کے دوران بھی فرمایا اور رمادہ کے بعد بھی۔ یہ تجویز دراصل مؤاخات کے اُصول پر تیار کی گئی تھی لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس پر عمل درآمد کا موقع ہی نہیں آیا اور اللہ تعالیٰ نے بارانِ رحمت کے ذریعے مصیبت ٹال دی۔ رمادہ کے زمانے میں راشن تقسیم کرتے ہوئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
نطعم ما وجدنا أن نطعم فإن أعوزنا جعلنا مع أهل كل بيت ممن يجد عدتهم ممن لا يجد أن يأتي اللّٰه بالحيا[3]
''جو کچھ ہمارے پاس موجود ہے وہ تو ہم کھلا دیں گے۔ پھر اگر ہم نے کمی محسوس کی تو کچھ رکھنے والے ہر گھرانے کے ساتھ ان کی تعداد کے برابر ایسے لوگ شامل کر دیں گے جو کچھ نہیں رکھتے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ بارش نازل کر دے۔''
[1] ایضاً
[2] عمر فاروق اعظم:ص ۳۴۱
[3] طبقات ابن سعد:۳؍ ۳۱۶