کتاب: محدچ شمارہ 367 - صفحہ 20
گئیں۔ جب کھانا پیش کیا گیا تو اُنہوں نے دیکھا کہ کوہان اور کلیجی کی اچھی اچھی بوٹیاں برتن میں موجود ہیں۔ فرمایا: یہ کہاں سے؟ خادم نے عرض کی: امیر المؤمنین! یہ ان اونٹوں کی چند بوٹیاں ہیں جو ہم نے آج ذبح کئے تھے۔ فرمایا:
بخ بخ بئس الوالي أنا إن أكلت طيبها وأطعمت الناس كراديسها[1]
''ہائے افسوس ہائے افسوس! میں بہت برا حکمران ہوں گا، اگر اچھی چیز خود کھا لوں اور ہڈیاں لوگوں کو کھلا دوں۔ اُٹھاؤ یہ برتن، کوئی اور کھانا میرے لیے لے آؤ۔ چنانچہ روٹی اور روغن زیتون لایا گیا۔ چنانچہ خود روٹی توڑ توڑ کر ثرید بنانے لگے۔ پھر فرمایا: اے یرفا! افسوس تمہارے اوپر۔ یہ برتن اُٹھا کر ثَمغ نامی مقام پر ٹھہرے ہوئے گھرانے کو لوگوں کے سامنے رکھ دو۔ کیونکہ تین دن ہوئے میں ان کے پاس نہیں جا سکا ہوں، میرا خیال ہے ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔''
مریضوں کی عیادت اور اَموات کی تدفین
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حسبِ استطاعت سب لوگوں کا اتنا خیال رکھا لیکن اس کے باوجود ان میں بیماری پھوٹ پڑی اور بہت سےلوگ اس کی نذر ہو گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے غلام اسلم کہتے ہیں کہ موت نے وبائی شکل اختیار کر لی اور میرا خیال ہے کہ پناہ گزینوں میں سے تقریباً دو تہائی لوگ موت کا شکار ہوئے اور ایک تہائی باقی رہ گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ خود مریضوں کی عیادت کے لیے تشریف لے جاتے اور جب کوئی مر جاتا تو اس کے لیے کفن بھیجتے اور اس کی نماز جناہ پڑھتے تھے۔ مالک بن اوس کہتے ہیں کہ
وكان يتعاهد مرضاهم وأكفن من مات منهم. لقد رأيت الموت وقع فيهم حين أكلوا الشُّفل وكان عمر يأتي بنفسه، يصلّي عليهم. لقد رأيته صلّٰى على عشرة جميعًا[2]
''حضرت عمر رضی اللہ عنہ مریضوں کی خبر گیری کیا کرتے تھے۔ مرنے والوں کے لیے کفن کا بندوبست کرتے تھے۔ میں نے دیکھا کہ گھاس پھوس کھا کھا کر لوگ موت کا شکار
[1] طبقات ابن سعد:۳؍ ۳۱۲
[2] طبقات ابن سعد:۳؍ ۳۱۷