کتاب: محدچ شمارہ 367 - صفحہ 19
عمر رضی اللہ عنہ نے اپنا دست ِمبارک اس کے سر پر رکھا۔ پھر ان کی چیخ نکلی: ہائے عمر ہائے عمر! کیا تمہیں معلوم ہے یہ شخص کیا کہہ رہا ہے؟ یہ قحط اور خشک سالی کا ذکر کر رہا ہے اور اس کا خیال ہے کہ عمر خود کھا پی رہا ہے اور مسلمان قحط وتنگ دستی میں مبتلا ہیں۔ کون ہے جوان کے پاس کھانے پینے کا سامان کھجور اور ان کی ضرورت کی چیزیں پہنچا دے۔ چنانچہ انصار میں سے دو آدمیوں کو روانہ کیا جن کے ساتھ غذائی سامان اور کھجور سے لدے بہت سارے اونٹ تھے جنہیں لے کر وہ دونوں یمن پہنچے اور سب کچھ تقسیم کر دیا، البتہ ایک اونٹ پر تھوڑا سامان بچ گیا۔ وہ انصاری بیان کرتے ہیں کہ واپسی پر جب ہم آ رہے تھے تو ہمارا گزر ایک ایسے شخص سے ہوا جس کی ٹانگیں بھوک سے سکڑ چکی تھیں لیکن اس حال میں بھی وہ کھڑے نماز پڑھ رہا تھا۔ ہمیں دیکھ کر اس نے سلام پھیرا اور پوچھا کیا تمہارے پاس کھانے کے لیے ہو گا؟ جو کچھ ہمارے پاس بچا تھا، ہم نے اس کے سامنے ڈال دیا اور اسے حضرت عمر کے بارے میں بتایا۔ اس نے کہا: و اللہ اگر ہمیں اللہ نے عمر کے سپرد کیا ہے تب تو ہم ہلاک ہو جائیں گے؟ یعنی اللہ ہی بچانے والا ہے۔ اس سامان کو چھوڑ کر وہ دوبارہ نماز میں مصروف ہوا اور اپنے ہاتھ دعا کے لیے اُٹھا دیے اور اس کے اُٹھے ہوئے ہاتھوں کے گرنے سے پہلے ہی اللہ نے بارانِ رحمت نازل فرما دی۔[1] مصیبت زدوں کو یاد رکھنا آپ نے اندازہ لگا لیا ہو گا کہ خشک سالی کتنے وسیع علاقے پر پھیلی ہوئی تھی۔ لوگ کس حد تک مفلوک الحال ہو چکے تھے اور کتنی بڑی تعداد مدینہ منورہ میں پناہ گزین ہو چکی تھی لیکن اس سب کچھ کے ہوتے ہوئے دونوں ہاتھ بلا اختیار خلیفہ عمر کی عظمت کو سلام کرنے اُٹھ جاتے ہیں،جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ قبائل تودرکنار وہ کسی ایک گھر کو بھی اس دوران بھول نہ پائے۔ ہر مصیبت زدہ ہر وقت ان کےذ ہن میں موجود رہتا تھا۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ حضرت عمر صائم الدہر تھے۔ رمادہ کے زمانے میں افطار کے وقت روٹی اور روغن زیتون کا ثرید بنا کر اُن کے سامنے پیش کیا جاتا تھا۔ ایک دن ایسا ہوا کہ کئی اُونٹ ذبح کیے گئے اور لوگوں کو گوشت کھلایا گیا اور چند اچھی اچھی بوٹیاں ان کےلیے رکھی
[1] مناقب عمر:ص ۷۵