کتاب: محدچ شمارہ 367 - صفحہ 18
بھی تھا کہ جو لوگ پہلے ہی دار الخلافہ میں پناہ لے چکے ہیں، ان کو واپس اپنے اصل مقامات پر واپس بھجوا دیا جائے۔ جب مسلمان دیکھیں گے کہ خلیفہ باہر کے علاقوں پر زیادہ توجہ دے رہا ہے اور ان علاقوں کو دار الخلافہ کے مقابلے میں اوّلیت دی جا رہی ہے اور ان کے آبائی علاقے مدینے کے مقابلے میں مقدم ہیں تو وہ خوشی خوشی ان علاقوں میں واپس جائیں گے، جہاں سے بھاگ کر اُنہوں نے ہجرت کی تھی۔[1]اس لائحہ عمل کا ایک اور فائدہ یہ بھی ہوا کہ لوگ خصوصاً عورتیں بچے اور بوڑھے صبر آزما سفر کی تکلیفوں اور اخراجات سے بچ گئے اور جو کچھ اُنہیں ملنا تھا،بغیر کسی اضافی خرچ اور سفر کے اُنہیں اپنے گھروں میں ہی مل گیا۔
حزام بن ہشام اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ اُنہوں نے فرمایا کہ میں نے دیکھا کہ حضرت عمر کے نمائندے جار کی بندرگاہ سے غذائی سامان وصول کر کے لوگوں کو کھلاتے رہے۔ اسی طرح حضرت معاویہ نے شام سے سامان بھیجا، حضرت عمر نے اس کی وصولی کے لیے شام کی سرحدوں تک آدمی بھیجے، جو حضرت عمر کے دوسرے نمائندوں کی طرح لوگوں کو آٹا کھلاتے رہے۔ اونٹ ذبح کرتے رہے اور چغے لوگوں کو پہناتے رہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص نے ایسا ہی سامان عراق سے بھیجا، تو حضرت عمر نے اس کی وصولی کے لیے اپنے آدمیوں کو عراق کی سرحدوں کے قریب بھیجا، وہ انہی علاقوں میں اونٹ ذبح کرتے اور لوگوں کو آٹا کھلاتے رہے اور چغے پہناتے رہے۔ یہ سلسلہ یونہی جاری رہا حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے یہ مصیبت رفع فرما دی۔[2]
امام ابن جوزی رحمہ اللہ نے ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک دن جبکہ حضرت عمر سنگریزوں سے بھری چادر سر کے نیچے رکھ کر مسجد میں آرام فرما رہے تھے۔ اُن کے کان میں کسی پکارنے والے کی یہ آواز پڑی کہ ہائے عمر، ہائے عمر! حضرت عمر پریشان ہو کر بیدار ہوئے اور جہاں سے آواز آ رہی تھی، اس طرف چل دیے۔ دیکھا کہ ایک دیہاتی شخص اونٹ کی مہار تھامے کھڑا ہے۔ لوگ اس کے اردگرد جمع ہیں، حضرت عمر کو دیکھ کر لوگوں نے کہا، یہ ہیں امیر المؤمنین۔ حضرت عمر نے اسے مظلوم خیال کرتے ہوئے پوچھا کہ تمہیں کس نے تکلیف دی ہے؟ اس شخص نے جواب میں چند اشعار پڑھے جن میں قحط کی شکایت کی تھی۔ حضرت
[1] جولہ تاریخیہ فی عصر الخلفاء الراشدین: ص ۲۶۷
[2] طبقات ابن سعد:۳؍ ۳۱۰۔۳۱۱